غزل ۔ وہ خود سراب ہے اوروں کو آب کیا دے گا ۔ انوار فیروز

محمداحمد

لائبریرین
غزل

وہ خود سراب ہے اوروں کو آب کیا دے گا
جو اک فریب ہے وہ احتساب کیا دے گا

وہ میرے دور کا چنگیز ہےکسے معلوم
نہ جانے شہر کو تازہ عذاب کیا دے گا

جو قول و فعل میں حائل ہے ناگ پھن کی طرح
مری صدی کو وہ سچ کا نصاب کیا دے گا

وہ جس کے ہاتھ سے میرا لہو ٹپکتا ہے
وہ اپنے ظلم کا مجھ کو حساب کیا دے گا

بھری بہار میں کلیوں کو جس نے قتل کیا
مرے چمن کو مہکتا گلاب کیا دے گا

سیاہ حروف کے پیکر تراشنے والا
سنہرے لفظوں کی مجھ کو کتاب کیا دے گا

روش روش پہ تمازت بکھیر دی اُس نے
نئی رتوں میں چمن کو جواب کیا دے گا

تمام عمر گزاری ہے جس نے ظلمت میں
وہ روشنی کے لئے آفتاب کیا دے گا

جو میری فکر کا محتاج ہے زمانے میں
مرے قلم کو وہ دولت مآب کیا دے گا

نقب لگا کے بنایا ہے جس نے دروازہ
وہ خار زادہ گلِ انتخاب کیا دے گا

اسی کو آج ہے فیروز بختیوں کی طلب
مگر اسے یہ طلسماتی خواب کیا دے گا

انوار فیروز

 
Top