غزل ۔ پھیکی ہے زیست اتنی ادائیں پہن کے بھی از: نویدظفرکیانی

پھیکی ہے زیست اتنی ادائیں پہن کے بھی
ظلمت میں کھو گئے ہیں ضیائیں پہن کے بھی
کیسی رُتیں ہیں آج دریچے کے سامنے
برسا رہی ہیں دھوپ گھٹائیں پہن کے بھی
سپنے تمام عمر تراشے چلا گیا
یہ دل تمہارے غم کی چتائیں پہن کے بھی
قربانیوں کی رُت میں بھی ہم سرخرو نہیں
ہیں برہنہ لہو کی قبائیں پہن کے بھی
میں رہ گیا ہوں ذات کے گنبد میں گونج کر
گونگے ہیں میرے لفظ صدائیں پہن کے بھی
نویدظفرکیانی
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب اشعار ہیں کیانی صاحب، اور آخری شعر تو بہت خوبصورت ہے۔

دوسرے شعر کا پہلا مصرع آپ کی توجہ چاہتا ہے، لفظ موسم وزن خراب کر رہا ہے۔
 
خوب اشعار ہیں کیانی صاحب، اور آخری شعر تو بہت خوبصورت ہے۔

دوسرے شعر کا پہلا مصرع آپ کی توجہ چاہتا ہے، لفظ موسم وزن خراب کر رہا ہے۔
بہت بہت شکریہ وارث صاحب
آپ نے بجا فرمایا ہے۔ لیکن تدوین کے حقوق سلب ہیں۔ کیا کیا جائے۔۔۔۔
یہ شعر یوں ہو تو کیسا رہے گا؟

کیسی رتیں ہیں آج دریچے کے سامنے
برسا رہی ہیں دہوپ گھٹائیں پہن کے بھی
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ کیانی صاحب، حقوق سلب نہیں ہیں یہ پلیٹ فارم کی مجبوری ہے، خیر میں تدوین کیے دیتا ہوں۔

والسلام
 
Top