نویدظفرکیانی
محفلین
پھیکی ہے زیست اتنی ادائیں پہن کے بھی
ظلمت میں کھو گئے ہیں ضیائیں پہن کے بھی
کیسی رُتیں ہیں آج دریچے کے سامنے
برسا رہی ہیں دھوپ گھٹائیں پہن کے بھی
سپنے تمام عمر تراشے چلا گیا
یہ دل تمہارے غم کی چتائیں پہن کے بھی
قربانیوں کی رُت میں بھی ہم سرخرو نہیں
ہیں برہنہ لہو کی قبائیں پہن کے بھی
میں رہ گیا ہوں ذات کے گنبد میں گونج کر
گونگے ہیں میرے لفظ صدائیں پہن کے بھی
نویدظفرکیانی