نصیر ترابی غزل ۔ پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی ۔ نصیر ترابی

محمداحمد

لائبریرین
غزل

پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی

شہروں میں ایک شہر مرے رتجگوں کا شہر
کوچے تو کیا دلوں ہی میں وسعت نہیں رہی

لوگوں میں میرے لوگ، وہ دلداریوں کے لوگ
بچھڑے تو دور دور رقابت نہیں رہی

شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام
اب نیم وا دریچوں کی حسرت نہیں رہی

راتوں میں ایک رات مرے گھر کی چاند رات
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی

راہوں میں ایک راہ، گھر لوٹنے کی راہ
ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی

یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی رات
وہ یاد کہاں کہ فرصت نہیں رہی

ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام
اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی

خوابوں میں ایک خواب، تری ہمرہی کا خواب
اب تجھ کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں رہی

رنگوں میں ایک رنگ تری سادگی کا رنگ
ایسی ہوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی

باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات
اور اب یہ اتفاق کہ چاہت نہیں رہی

فصلوں میں ایک فصل وہ جاندادگی کی فصل
بادل کو یاں زمین سے رغبت نہیں رہی

زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم
اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی

سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی

نصیر ترابی
 

صائمہ شاہ

محفلین
واہ


شہروں میں ایک شہر مرے رتجگوں کا شہر​
کوچے تو کیا دلوں ہی میں وسعت نہیں رہی​

لوگوں میں میرے لوگ، وہ دلداریوں کے لوگ​
بچھڑے تو دور دور رقابت نہیں رہی​

شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام​
اب نیم وا دریچوں کی حسرت نہیں رہی​

راتوں میں ایک رات مرے گھر کی چاند رات​
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی

کس کس شعر پر داد دی جائے ۔ بہت عمدہ انتخاب​
 

عباد اللہ

محفلین

طالب سحر

محفلین
نصیر ترابی کے مجموعہ کلام "عکس فریادی" (2000) میں یہ غزل یوں ہے:
پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی

شہروں میں ایک شہر مرے رَت جگوں کا شہر
کوچے تو کیا دِلوں ہی میں وسعت نہیں رہی

لوگوں میں میرے لوگ وہ دل داَریوں کے لوگ
بچھڑے تو دُور دُور رقابت نہیں رہی

شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام
اب نیم وَا دریچوں کی حسرت نہیں رہی

راتوں میں ایک رات مِرے گھر کی چاند رات
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی

راہوں میں ایک راہ وہ گھر لَوٹنے کی راہ
ٹہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی

یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد
وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی

ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام
اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی

خوابوں میں ایک خواب تری ہم رَہی کا خواب
اب تجھ کو دیکھنے کی بھی صورت نہیں رہی

رنگوں میں ایک رنگ تری سادگی کا رنگ
ایسی ہَوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی

باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات
اور اب یہ اِتّفاق کہ چاہت نہیں رہی

یاروں میں ایک یار وہ عیّاریوں کا یار
مِلنا نہیں رہا تو شکایت نہیں رہی


فصلوں میں ایک فصل وہ جان دادگی کی فصل
بادل کو یاں زمین سے رغبت نہیں رہی

زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم
اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی

سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
نصیر ترابی کے مجموعہ کلام "عکس فریادی" (2000) میں یہ غزل یوں ہے:
پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی

شہروں میں ایک شہر مرے رَت جگوں کا شہر
کوچے تو کیا دِلوں ہی میں وسعت نہیں رہی

لوگوں میں میرے لوگ وہ دل داَریوں کے لوگ
بچھڑے تو دُور دُور رقابت نہیں رہی

شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام
اب نیم وَا دریچوں کی حسرت نہیں رہی

راتوں میں ایک رات مِرے گھر کی چاند رات
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی

راہوں میں ایک راہ وہ گھر لَوٹنے کی راہ
ٹہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی

یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد
وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی

ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام
اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی

خوابوں میں ایک خواب تری ہم رَہی کا خواب
اب تجھ کو دیکھنے کی بھی صورت نہیں رہی

رنگوں میں ایک رنگ تری سادگی کا رنگ
ایسی ہَوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی

باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات
اور اب یہ اِتّفاق کہ چاہت نہیں رہی

یاروں میں ایک یار وہ عیّاریوں کا یار
مِلنا نہیں رہا تو شکایت نہیں رہی


فصلوں میں ایک فصل وہ جان دادگی کی فصل
بادل کو یاں زمین سے رغبت نہیں رہی

زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم
اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی

سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی

بہت شکریہ محترم کہ آپ نے درست غزل پوسٹ کی۔

میں نے اسے غالباً ریختہ سے کاپی کیا تھا اور کچھ مصرعوں پر اٹکا بھی تھا لیکن غزل ایسی اچھی تھی کہ رہا نہیں گیا۔

اگر آپ کے پاس نصیر ترابی صاحب کا مجموعہ اس میں سے مزید کلام بھی بشرطِ فرصت و استطاعت شاملِ محفل کیجے۔

باقی تمام احباب کی پسندیدگی کا بھی بہت شکریہ۔
 

Majzoob

محفلین
کسی دوا کسی دعا کی ضرورت نہیں رہی
اس زندگی کی کوئی حقیقت نہیں رہی
نیکی گناہ کا کھیل لمحات ہی میں ھے
لمحوں میں اب تو رہنے کی عادت نہیں رہی
 
Top