محمداحمد
لائبریرین
غزل
کن لفظوں میں اتنی کڑوی، اتنی کسیلی بات لکھوں
شہر کی میں تہذیب نبھاؤں، یا اپنے حالات لکھوں
غم نہیں لکھوں کیا میں غم کو، جشن لکھوں کیا ماتم کو
جو دیکھے ہیں میں نے جنازے کیا اُن کو بارات لکھوں
کیسے لکھوں میں چاند کے قصے، کیسے لکھوں میں پھول کی بات
ریت اُڑائے گرم ہوا تو کیسے میں برسات لکھوں
کس کس کی آنکھوں میں دیکھے میں نے زہر بجھے خنجر
خود سے بھی جو میں نے چھپائے کیسے وہ صدمات لکھوں
تخت کی خواہش، لُوٹ کی لالچ، کمزوروں پر ظلم کا شوق
لیکن اُن کا فرمانا ہے میں اُن کو جذبات لکھوں
قاتل بھی مقتول بھی دونوں نام خدا کا لیتے تھے
کوئی خدا ہے تو وہ کہاں تھا، میری کیا اوقات لکھوں
اپنی اپنی تاریکی کو لوگ اُجالا کہتے ہیں
تاریکی کے نام لکھوں تو قومیں، فرقے، ذات لکھوں
جانے یہ کیسا دور ہے جس میں یہ جرآت بھی مشکل ہے
دن ہو اگر تو اُس کو لکھوں دن، رات اگر ہو رات لکھوں
جاوید اختر