ایس فصیح ربانی
محفلین
شاہین فصیح ربانی
غزل
پہلے اس خاکدان سے نکلے
پھر کوئی آسمان سے نکلے
حسرتوں کے جہان سے نکلے
دل جو تیرے گمان سے نکلے
دونوں کردار ہی ضروری ہیں
کون اس داستان سے نکلے
اس کے ہونے سے میرا ہونا ہے
پھر وہ کیوں میرے دھیان سے نکلے
رنجشیں جس سے اور بڑھ جائیں
لفظ وہ کیوں زبان سے نکلے
سامنا ہے کسی سمندر کا
راستہ درمیان سے نکلے
کس کی خواہش نہیں فصیحؔ کہ وہ
سرخرو اس جہان سے نکلے