انور شعور غزل ۔ کچھ لکیریں روز نقشے سے مٹا دیتی ہے آگ ۔ انور شعورؔ

محمداحمد

لائبریرین
غزل
کچھ لکیریں روز نقشے سے مٹا دیتی ہے آگ
کیسے کیسے شہر مٹّی میں ملا دیتی ہے آگ
زندہ رہنا، جلتے رہنے کے برابر ہے مگر
زندگی اک آگ ہے کندن بنا دیتی ہے آگ
جو کلی کھلتی ہے کیاری میں، جلا دیتی ہے دھوپ
جو دیا جلتا ہے دھرتی پر، بجھا دیتی ہے آگ
ایک بچہ بھی ملا جھلسے ہوئے افراد میں
پیڑ کے ہمراہ گُل بوٹے جلا دیتی ہے آگ
یاد اب اوّل تو آتی ہی نہیں اُس کی شعورؔ
اور آتی ہے تو سینے میں لگا دیتی ہے آگ
انور شعورؔ
 

طارق شاہ

محفلین
بہت خوب انتخاب!
تشکّر پیش کرنے پر :


لیں داد پیش کرنے پہ اُن کی غزل حضُور
ہیں عندلیب ِگلشن ِ شعر و سُخن شعُور


:)
 
Top