محمداحمد
لائبریرین
غزل
کہہ رہے تھے لوگ صحرا جل گیا
پھر خبر آئی کہ دریا جل گیا
دیکھ لو میں بھی ہوں، میرا جسم بھی
بس ہُوا یہ ہے کہ چہرہ جل گیا
میرے اندازے کی نسبت وہ چراغ
کم جلا تھا، پھر بھی اچّھا جل گیا
شارٹ سرکٹ سے اُڑی چنگاریاں
صدر میں اک پھول والا جل گیا
آگ برسی تھی بدی کے شہر پر
اک ہمارا بھی شناسا جل گیا
میں تو شعلوں میں نہایا تھا فروغ
دور سے لوگوں نے سمجھا جل گیا
رئیس فروغ