محمد وارث
لائبریرین
اساتذہ کی زمین میں غزلیں کہنا عام بات ہے، غالب نے جہاں فارسی شاعری میں فارسی شاعری کے اساتذہ کی زمینیں استعمال کی ہیں، ایک غزل سودا کی زمین میں بھی کہی ہے۔
غالب کی غزل "جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں" ایک شاہکار ہے تو سودا کی غزل بھی بہت خوبصورت ہے:
گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں
نہ دیکھا جو کچھ جام میں جَم نے اپنے
سو اک قطرۂ مے میں ہم دیکھتے ہیں
یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری
تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں
غَرَض کفر سے کچھ، نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
خدا دشمنوں کو نہ وہ کچھ دکھاوے
جو کچھ دوست اپنے سے ہم دیکھتے ہیں
مگر تجھ سے رنجیدہ خاطر ہے سودا
اسے تیرے کوچے میں کم دیکھتے ہیں
(مرزا رفیع سودا)
غالب کی غزل "جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں" ایک شاہکار ہے تو سودا کی غزل بھی بہت خوبصورت ہے:
گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں
نہ دیکھا جو کچھ جام میں جَم نے اپنے
سو اک قطرۂ مے میں ہم دیکھتے ہیں
یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری
تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں
غَرَض کفر سے کچھ، نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
خدا دشمنوں کو نہ وہ کچھ دکھاوے
جو کچھ دوست اپنے سے ہم دیکھتے ہیں
مگر تجھ سے رنجیدہ خاطر ہے سودا
اسے تیرے کوچے میں کم دیکھتے ہیں
(مرزا رفیع سودا)