غزل ۔ گل ناز کوثر

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

جس گھڑی شام پتھرائی چوکھٹ کو چھونے لگی نرم دستک ہوئی کانپتے ہاتھ سے ایک لمحہ گرا دل دھڑکنے لگا
خواب تھا یا کسی جاگتی جیتی ساعت نے حیراں نگاہوں پہ جھکتے ہوئے دید کا ایک موتی دھرا دل دھڑکنے لگا

گاہے گاہے اٹھی تھی وہ ساحر نظر جس طرح روشنی سے بھری اپسراؤں کے رتھ گنگناتی ہوائوں پہ بہنے لگیں
دھیمے لہجے کی جادوگری تھی کہ شبدوں کا کومل فسوں جس کو چھو کے غزل سانس لینے لگی شعر کا دل دھڑکنے لگا

بادلوں کو جھٹکتے ہوئے رات کی گود میں چاند نے سر دھرا کانچ کی جھیل میں نیلگوں نیند گھلنے لگی
سوئی سوئی نگاہوں میں اترا حسیں دلنشیں خواب بھٹکی ہوئی سوچ بہکے خیالوں کا ریلا چلا دل دھڑکنے لگا

دیکھ مرجھائے پھولوں سے خوشبو اٹھی ریشمیں رنگ روشن ہوئے قفل ٹوٹے تمناؤں کےآرزوئیں دہکنے لگیں
شوق کو اس قدر مت بڑھا خواہشوں کے خدا مان جاسرد خانوں سے اٹھتی صدا ٹھیر جا ٹھیر جا دل دھڑکنے لگا

بادشاہِ سخن آج کی رات قدموں میں ہیں کہکشاؤں بھرے آسماں ، وقت کی تال پر رقص کرتے ہوئے دو جہاں
زندگی آج جی لے مرے خواب گر، کل کی کس کو خبر ،سرد سوئی ہوئی خاک سے کوئی نغمہ اٹھا دل دھڑکنے لگا

(گُل ناز کوثر)
 
Top