محمداحمد
لائبریرین
غزل
ہر قرضِ سفر چُکا دیا ہے
دشت اور نگر ملا دیا ہے
جُز عشق کسے ملی یہ توفیق
جو پایا اُسے گنوا دیا ہے
پہلے ہی بہت تھا ہجر کا رنج
اب فاصلوں نے بڑھا دیا ہے
آبادیوں سے گئے ہُوؤں کو
صحراؤں نے حوصلہ دیا ہے
دیوار بدست راہ رو تھے
کس نے کسے راستہ دیا ہے
بچھڑا تو تسلی دی ہے اس نے
کس دھند میں آئینہ دیا ہے
میں بُجھ تو گیا ہوں پھر بھی مجھ میں
روشن ترے نام کا دیا ہے
جمالؔ احسانی