محمداحمد
لائبریرین
غزل
یہ بھی نہیں رہیں گے جو وہ دن نہیں رہے
کچھ لوگ اپنے ظلم مگر گن نہیں رہے
سوچوں کی دھوپ ، خون کی حدت، نظر کی تاب
اعزاز کیسے کیسے یہاں چھن نہیں رہے
ہاں ہم سیاہ رتوں میں سحر کے نقیب تھے
اب ہم بھی اس مزاج کے لیکن نہیں رہے
عریاں کیا ہے حرص کی خلعت نے یوں ہمیں
تن کیا ضمیر ڈھانپنے ممکن نہیں رہے
تمغے عبادتوں کے جبینوں پہ ثبت ہیں
پر شہر رو رہے ہیں کہ مومن نہیں رہے
انجم منافقت نے قرینے بدل دیئے
اب لفظ اعتبار کے ضامن نہیں رہے
انجم خلیق
یہ بھی نہیں رہیں گے جو وہ دن نہیں رہے
کچھ لوگ اپنے ظلم مگر گن نہیں رہے
سوچوں کی دھوپ ، خون کی حدت، نظر کی تاب
اعزاز کیسے کیسے یہاں چھن نہیں رہے
ہاں ہم سیاہ رتوں میں سحر کے نقیب تھے
اب ہم بھی اس مزاج کے لیکن نہیں رہے
عریاں کیا ہے حرص کی خلعت نے یوں ہمیں
تن کیا ضمیر ڈھانپنے ممکن نہیں رہے
تمغے عبادتوں کے جبینوں پہ ثبت ہیں
پر شہر رو رہے ہیں کہ مومن نہیں رہے
انجم منافقت نے قرینے بدل دیئے
اب لفظ اعتبار کے ضامن نہیں رہے
انجم خلیق