اقبال عظیم غزل ۔ یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعاکرو، نہ دوا کرو ۔ اقبال عظیم

محمداحمد

لائبریرین
اقبال عظیم کی یہ غزل مجھے بے حد پسند ہے۔ بہت عرصہ بعد یاد آئی ہے اور یادداشت کے سہارے ہی لکھ رہا ہوں شاید کچھ اشعار کم ہوں یا ترتیب آگے پیچھے ہو۔ اگر کسی دوست کے پاس اصل نسخہ موجود ہو تو نظر ثانی کی درخواست ہے۔

غزل

یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعاکرو، نہ دوا کرو
جو کرو تو اتنا کرم کرو، مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو

یہ جو ایک ترکشِ وقت ہے، ابھی اس میں تیر بہت سے ہیں
کوئی تیر تم کو نہ آلگے ، مرے حالِ دل پہ نہ یوں ہنسو

میں نہ قیس ہوں، نہ ہوں کوہکن، مجھے اپنی جان عزیز ہے
مجھے ترکِ عشق قبول ہے جو تمھیں یقینِ وفا نہ ہو

جو تمھارے دل میں شکوک ہیں تو یہ عہد نامے فضول ہیں
یہ تمھارے خط ہیں سنبھال لو، جو مرے خطوط ہوں پھاڑ دو

جو کوئی کسی کو ستائے گا تو گلہ بھی ہونٹوں تک آئے گا
یہ تو اک اُصول کی بات ہے جو خفا ہو مجھ سے تو کوئی ہو

اقبال عظیم
 

کاشفی

محفلین
عمدہ محمد احمد بھائی۔۔عمدہ۔۔شکریہ بیحد شریک محفل کرنے کے لیئے۔۔۔

میں نہ قیس ہوں، نہ ہوں کوہکن، مجھے اپنی جان عزیز ہے
مجھے ترکِ عشق قبول ہے جو تمھیں یقینِ وفا نہ ہو
 

طارق شاہ

محفلین
غزل
اقبال عظیم
یہ مِری اَنا کی شِکست ہے، نہ دوا کرو نہ دُعا کرو
جو کرو تو بس یہ کرم کرو، مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو ایک ترکشِ وقت ہے، ابھی اُس میں تِیر بہت سے ہیں
کوئی تیر تم کو نہ آ لگے مِرے زخمِ دل پہ نہ یُوں ہنسو
نہ میں کوہ کن ہوں، نہ قیس ہوں، مجھے اپنی جان عزیز ہے
مجھے ترکِ عِشق قبوُل ہے، جو تمھیں یقینِ وفا نہ ہو
جو تُمھارے دِل میں شکوُک ہیں تو یہ عہْد نامے فضُول ہیں
جو مِرے خطوُط ہیں پھاڑ دو، یہ تُمھارے خط ہیں سمیٹ لو
جو کسی کو کوئی ستائے گا تو گلہ بھی ہونٹوں تک آئے گا
یہ تو اِک اصول کی بات ہے، جو خفا ہے مجھ سے کوئی تو ہو
مجھے اب صداؤں سے کام ہے، مجھے خال و خد کی خبر نہیں
تو پھر اِس فریب سے فائدہ ؟ یہ نقاب اب تو اُتار دو
مجھے اپنے فُقر پہ ناز ہے، مجھے اِس کرَم کی طلب نہیں
میں گدا نہیں ہُوں فقِیر ہُوں، یہ کرَم گداؤں میں بانٹ دو
یہ فقط تُمھارے سوال کا، مِرا مُختصر سا جَواب ہے
یہ گِلہ نہیں ہے، خلوُص ہے، مِری گفتگو کا اثر نہ لو
یہ ادھوُرے چاند کی چاندنی بھی اندھیری رات میں کم نہیں !​
کہیں یہ بھی ساتھ نہ چھوڑ دے، ابھی روشنی ہے چلے چلو
اقبال عظیم
 
Top