غزل #1 برائے اصلاح

انس معین

محفلین
اس دل میں اب تو ایسے تیرا خیال آئے
شرما کے جیسے کوئی آنچل میں منہ چھپائے

اس دل کی دھڑکنوں کو اب چین آ نہ پائے
یہ التجا ہے کوئی اب جا اسے منائے

ہے رات بھر اداسی اب دن ہیں کس نے دیکھے
ہے درد کی یہ شدت منظر ہیں دھندلائے

خود کو ابھی سنبھالا ہیں خود ہی آنسو پونچھے
ہیں پھر سے نم نگاہیں تم پھر سے یاد آئے

اس روٹھے دل کو آج ہم پھر منا رہے تھے
پھر اس نے پوچھا تیرا ہم پھر کہ کچھ نہ پائے


سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔
عظیم ، فلسفی
الف عین
محمد تابش صدیقی
یاسر شاہ
سید عاطف علی
 
آخری تدوین:
ہے رات بھر اداسی اب دن ہیں کس نے دیکھے
ہے درد کی یہ شدت منظر ہیں دھندلائے
سر [R]

دھندلائے کو آپ نے غلط باندھا ہے۔ اس میں نون غنہ ہے جبکہ آپ نے ن باندھا ہے۔
دھند بمعنی کہر یا ( فوگ) میں نون املا کیا جائے گا
جبکہ دھندلانا بمعنی مدھم پڑنا میں نون غنہ۔

اس روٹھے دل کو آج ہم پھر منا رہے تھے
پھر اس نے پوچھا تیرا ہم پھر کہ کچھ نہ پائے

[R]

اس شعر کو دوبارہ کہہ لیجیے کہ پہلے مصرع میں آدھا رکن کم ہے نیز دوسرے مصرع میں پوچھا کا الف گر رہا ہے ، آگے آپ نے کہہ کو نہ صرف کہ لکھا ہے بلکہ باندھا بھی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اس شعر کو دوبارہ کہہ لیجیے کہ پہلے مصرع میں آدھا رکن کم ہے نیز دوسرے مصرع میں پوچھا کا الف گر رہا ہے ، آگے آپ نے کہہ کو نہ صرف کہ لکھا ہے بلکہ باندھا بھی ہے۔
یہ پڑھا تو سمجھ میں آیا کہ یہ 'کہہ' کی املا ہے ورنہ میں تو 'کہ' سمجھ کر مطلب پر ہی غور کر رہا تھا
 

الف عین

لائبریرین
اس دل میں اب تو ایسے تیرا خیال آئے
شرما کے جیسے کوئی آنچل میں منہ چھپائے
... 'اب تو' کی معنویت معلوم نہیں ہوتی، شاید بھرتی کا ہے۔ اس طرح واضح کہیں تو!
دل میں کچھ اس طرح سے تیرا.....

اس دل کی دھڑکنوں کو اب چین آ نہ پائے
یہ التجا ہے کوئی اب جا اسے منائے
.... دھڑکنیں بے چین ہیں یا روٹھ گئی ہیں جو منانے کی التجا کی جا رہی ہے؟ اسے پھر سے کہیں

ہے رات بھر اداسی اب دن ہیں کس نے دیکھے
ہے درد کی یہ شدت منظر ہیں دھندلائے
دھندلائے کی بات ہو چکی، درست تلفظ میں آ ہی نہیں سکتا، پھر کہیں

خود کو ابھی سنبھالا ہیں خود ہی آنسو پونچھے
ہیں پھر سے نم نگاہیں تم پھر سے یاد آئے
.... کہیں حال کا صیغہ ہے کہیں ماضی کا، اسے اس طرح کہو تو رواں بھی ہو اور با معنی بھی
پونچھے تھے اپنے آنسو، خود ہی سنبھل گئے تھے
پھر نم ہوئی ہیں آنکھیں، تم پھر سے یاد آئے
پہلا مصرع مزید بہتر بھی ہو سکتا ہے

اس روٹھے دل کو آج ہم پھر منا رہے تھے
پھر اس نے پوچھا تیرا ہم پھر کہ کچھ نہ پائے
... اسے بھی دوبارہ کہیں
 

انس معین

محفلین
دھندلائے کو آپ نے غلط باندھا ہے۔ اس میں نون غنہ ہے جبکہ آپ نے ن باندھا ہے۔
دھند بمعنی کہر یا ( فوگ) میں نون املا کیا جائے گا
جبکہ دھندلانا بمعنی مدھم پڑنا میں نون غنہ۔



اس شعر کو دوبارہ کہہ لیجیے کہ پہلے مصرع میں آدھا رکن کم ہے نیز دوسرے مصرع میں پوچھا کا الف گر رہا ہے ، آگے آپ نے کہہ کو نہ صرف کہ لکھا ہے بلکہ باندھا بھی ہے۔


بہت شکریہ سر بہتر کرتا ہوں
 

انس معین

محفلین
اس دل میں اب تو ایسے تیرا خیال آئے
شرما کے جیسے کوئی آنچل میں منہ چھپائے
... 'اب تو' کی معنویت معلوم نہیں ہوتی، شاید بھرتی کا ہے۔ اس طرح واضح کہیں تو!
دل میں کچھ اس طرح سے تیرا.....

اس دل کی دھڑکنوں کو اب چین آ نہ پائے
یہ التجا ہے کوئی اب جا اسے منائے
.... دھڑکنیں بے چین ہیں یا روٹھ گئی ہیں جو منانے کی التجا کی جا رہی ہے؟ اسے پھر سے کہیں

ہے رات بھر اداسی اب دن ہیں کس نے دیکھے
ہے درد کی یہ شدت منظر ہیں دھندلائے
دھندلائے کی بات ہو چکی، درست تلفظ میں آ ہی نہیں سکتا، پھر کہیں

خود کو ابھی سنبھالا ہیں خود ہی آنسو پونچھے
ہیں پھر سے نم نگاہیں تم پھر سے یاد آئے
.... کہیں حال کا صیغہ ہے کہیں ماضی کا، اسے اس طرح کہو تو رواں بھی ہو اور با معنی بھی
پونچھے تھے اپنے آنسو، خود ہی سنبھل گئے تھے
پھر نم ہوئی ہیں آنکھیں، تم پھر سے یاد آئے
پہلا مصرع مزید بہتر بھی ہو سکتا ہے

اس روٹھے دل کو آج ہم پھر منا رہے تھے
پھر اس نے پوچھا تیرا ہم پھر کہ کچھ نہ پائے
... اسے بھی دوبارہ کہیں
بہت شکریہ سر بہتر کرتا ہوں
 

انس معین

محفلین
دھندلائے کو آپ نے غلط باندھا ہے۔ اس میں نون غنہ ہے جبکہ آپ نے ن باندھا ہے۔
دھند بمعنی کہر یا ( فوگ) میں نون املا کیا جائے گا
جبکہ دھندلانا بمعنی مدھم پڑنا میں نون غنہ۔



اس شعر کو دوبارہ کہہ لیجیے کہ پہلے مصرع میں آدھا رکن کم ہے نیز دوسرے مصرع میں پوچھا کا الف گر رہا ہے ، آگے آپ نے کہہ کو نہ صرف کہ لکھا ہے بلکہ باندھا بھی ہے۔
سر اس کے ساتھ رہنمائی فرما دیں کے ان غلطیوں سے کیسا بچا جائے ۔
 

فلسفی

محفلین
سر اس کے ساتھ رہنمائی فرما دیں کے ان غلطیوں سے کیسا بچا جائے ۔
ازراہ تفنن
شاعری نہ کر کے :D

بھائی غلطی ہوگی تو کوئی بڑا اس کو سدھارے گا۔ غلطی سے نہ ڈریے، بے دریغ کیجیے، بس کوشش یہ کیجیے کہ غلطی دہرائی نہ جائے۔ دہرائی بھی جائے تو قصدا نہ ہو۔ اگر غلطی ہو ہی نہ تو اصلاح کی زمرے میں جالے لگ جائیں۔ یہ زمرہ ہم جیسے مبتدیوں کی اغلاط اور اس پر اساتذہ کی اصلاح کی جھاڑ پونچھ سے ہی آباد ہے۔ اللہ پاک اس کو آباد رکھے۔
 

انس معین

محفلین
اس دل میں اب تو ایسے تیرا خیال آئے
شرما کے جیسے کوئی آنچل میں منہ چھپائے
... 'اب تو' کی معنویت معلوم نہیں ہوتی، شاید بھرتی کا ہے۔ اس طرح واضح کہیں تو!
دل میں کچھ اس طرح سے تیرا.....

اس دل کی دھڑکنوں کو اب چین آ نہ پائے
یہ التجا ہے کوئی اب جا اسے منائے
.... دھڑکنیں بے چین ہیں یا روٹھ گئی ہیں جو منانے کی التجا کی جا رہی ہے؟ اسے پھر سے کہیں

ہے رات بھر اداسی اب دن ہیں کس نے دیکھے
ہے درد کی یہ شدت منظر ہیں دھندلائے
دھندلائے کی بات ہو چکی، درست تلفظ میں آ ہی نہیں سکتا، پھر کہیں

خود کو ابھی سنبھالا ہیں خود ہی آنسو پونچھے
ہیں پھر سے نم نگاہیں تم پھر سے یاد آئے
.... کہیں حال کا صیغہ ہے کہیں ماضی کا، اسے اس طرح کہو تو رواں بھی ہو اور با معنی بھی
پونچھے تھے اپنے آنسو، خود ہی سنبھل گئے تھے
پھر نم ہوئی ہیں آنکھیں، تم پھر سے یاد آئے
پہلا مصرع مزید بہتر بھی ہو سکتا ہے

اس روٹھے دل کو آج ہم پھر منا رہے تھے
پھر اس نے پوچھا تیرا ہم پھر کہ کچھ نہ پائے
... اسے بھی دوبارہ کہیں

سر دوبارہ درخواست ہے۔۔۔۔

کچھ اس طرح سے دل میں تیرا خیال آئے
شرما کے جیسے کوئی آنچل میں منہ چھپائے

وہ روٹھ کر گیا تو دھڑکن سی رک گئی ہے
یہ التجا ہے کوئی اب جا اسے منائے

سکوں ہے اس میں چاہے کانٹوں سے ہی بنا ہے
جب گھونسلہ کوئَی دیکھیں گھر کی یاد آئے

پونچھے تھے اپنے آنسو ہم کچھ سنبھل رہے تھَے
پھر نم ہوئی ہیں آنکھیں، تم پھر سے یاد آئے

خاموش سی ہیں آنکھیں چہرہ اداس سا ہے
لیکن ہمارے دل سےچیخوں کا شور آئے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کچھ اس طرح سے دل میں تیرا خیال آئے
شرما کے جیسے کوئی آنچل میں منہ چھپائے
... درست

وہ روٹھ کر گیا تودھڑکن سی رک گئی ہے
یہ التجا ہے کوئی اب جا اسے منائے
.... تو کا طویل کھنچنا اچھا نہیں لگ رہا، اس کو اس طرح کر سکتے ہیں
دھڑکن سی رک گئی ہے جب روٹھ کر گیا وہ
دوسرے مصرعے میں 'آرزو' استعمال کریں بجائے التجا کے۔ التجا کسی سے کی جاتی ہے، اور اس 'کسی' کا یہاں ذکر نہیں

سکوں ہے اس میں چاہے کانٹوں سے ہی بنا ہے
جب گھونسلہ کوئَی دیکھیں گھر کی یاد آئے
... یہ نیا شعر ہے، پہلا مصرعہ بحر سے خارج
دوسرے میں، 'دیکھیں' لفظ دے اور کھیں دو بے معنی ٹکڑوں میں ٹوٹ رہا ہے کہ یہ بحر ہی دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے اور دونوں میں بات مکمل ہونے کی ضرورت ہے

پونچھے تھے اپنے آنسو ہم کچھ سنبھل رہے تھَے
پھر نم ہوئی ہیں آنکھیں، تم پھر سے یاد آئے
... درست

خاموش سی ہیں آنکھیں چہرہ اداس سا ہے
لیکن ہمارے دل سےچیخوں کا شور آئے
... اداس سا' میں تنافر ہے س کی تکرار کے باعث
خاموش سی ہیں آنکھیں ہونٹوں پہ چپ لگی ہے
کیا جا سکتا ہے
 

انس معین

محفلین
کچھ اس طرح سے دل میں تیرا خیال آئے
شرما کے جیسے کوئی آنچل میں منہ چھپائے
--------------------------------------
دھڑکن سی رک گئی ہے جب روٹھ کر گیا وہ
یہ آرزو ہے کوئی اب جا اسے منائے
--------------------------------------
اس میں ہی سکوں ہے چاہے کانٹوں سے بنا ہے
ہم دیکھیں گھونسلے کو اور گھر کی یاد آئے
--------------------------------------
پونچھے تھے اپنے آنسو ہم کچھ سنبھل رہے تھَے
پھر نم ہوئی ہیں آنکھیں، تم پھر سے یاد آئے
--------------------------------------
خاموش سی ہیں آنکھیں ہونٹوں پہ چپ لگی ہے
لیکن اداؔ کے دل سےچیخوں کا شور آئے
--------------------------------------
 

عظیم

محفلین
دھڑکن سی رک گئی ہے جب روٹھ کر گیا وہ
یہ آرزو ہے کوئی اب جا اسے منائے
--------------------------------------'جائے اسے منائے یا جا کر اسے منائے میں سے کوئی ایک زیادہ بہتر رہے گا

اس میں ہی سکوں ہے چاہے کانٹوں سے بنا ہے
ہم دیکھیں گھونسلے کو اور گھر کی یاد آئے
------------------------------------ابھی بھی بحر میں نہیں پہلا مصرع
 

انس معین

محفلین
دھڑکن سی رک گئی ہے جب روٹھ کر گیا وہ
یہ آرزو ہے کوئی اب جا اسے منائے
--------------------------------------'جائے اسے منائے یا جا کر اسے منائے میں سے کوئی ایک زیادہ بہتر رہے گا

اس میں ہی سکوں ہے چاہے کانٹوں سے بنا ہے
ہم دیکھیں گھونسلے کو اور گھر کی یاد آئے
------------------------------------ابھی بھی بحر میں نہیں پہلا مصرع



دھڑکن سی رک گئی ہے جب روٹھ کر گیا وہ
یہ آرزو ہے کوئی جائے اسے منائے

کانٹوں سے ہی بنا ہے لیکن سکوں بھرا ہے
ہم دیکھیں گھونسلے کو اور گھر کی یاد آئے
 

عظیم

محفلین
کانٹوں سے ہی بنا ہے لیکن سکوں بھرا ہے
ہم دیکھیں گھونسلے کو اور گھر کی یاد آئے
پہلے مصرع میں 'ہی' اضافی معلوم ہو رہا ہے، اور دوسرے مصرع میں 'ہم' کی جگہ کچھ اور لفظ لائیں جس کی وجہ سے اس مصرع کا پہلے سے ربط مزید بہتر ہو سکے
 

انس معین

محفلین
پہلے مصرع میں 'ہی' اضافی معلوم ہو رہا ہے، اور دوسرے مصرع میں 'ہم' کی جگہ کچھ اور لفظ لائیں جس کی وجہ سے اس مصرع کا پہلے سے ربط مزید بہتر ہو سکے
کانٹوں سے یہ بنا ہے لیکن سکوں بھرا ہے
جو دیکھیں گھونسلے کو تو گھر کی یاد آئے
 

الف عین

لائبریرین
اگرچہ جو اور تو دونوں طویل کھنچ رہے تھے تو 'جب' سے کم از کم ایک سقم تو دور ہو گیا
 
آخری تدوین:

انس معین

محفلین
اگرچہ جو اور رو دونوں طویل کھنچ رہے تھے تو 'جب' سے کم از کم ایک سقم تو دور ہو گیا
یہ میری پہلی غزل ہے جو اب کچھ مکمل سی لگ رہی ہے ۔آپ تمام بزرگوں اور دوستوں سے اصلاح لے کر بہت خوشی ہوئی اور اس بات کا اندازہ بھی کے استاد اور اصلاح کس طرح نکھار پیدا کرتے ہیں ۔ آپ تمام احباب کا بہت شکریہ ۔ میرا شوق اور بھی بڑھا ہے ۔ استاد محترم الف عین صاحب اور باقی تمام دوستوں کو زحمت دیتا رہوں گا ۔

فلسفی
عظیم
 
Top