حکیم علی الوردي
محفلین
کہتا رہا نا تجھ سے مجھے مت خدا بنا
بننا نہیں تھا مجھ کو تو کیوں کبریا بنا
ہستی کو بھی عدم کا کوئی نقشِ پا بنا
جو کچھ فنا بنا نہ بغیر از فنا بنا
بے معنی ایک لفظ کو مت آسرا بنا
گر پھر بنا مجھے تو بنامِ خدا بنا
وہ درد ہیں کہ جن کا بیاں بھی نہیں کوئی
رہتا ہے گھر ہمارا سدا کربلا بنا
اک زخمِ دل تھا سو تھا تمہارا دیا ہوا
یوں مت کہو کہ کیا ہوا بولو کہ کیا بنا
تھا اس جہان میں بھی تماشائی میں کوئی
وہ کیا ہے اس جہاں میں جو میرے بنِا بنا
تازہ ہیں خاک میں بھی وہی ولولے حکیم
اک زخم کہہ رہا ہے کہ دل ہے نیا بنا
بننا نہیں تھا مجھ کو تو کیوں کبریا بنا
ہستی کو بھی عدم کا کوئی نقشِ پا بنا
جو کچھ فنا بنا نہ بغیر از فنا بنا
بے معنی ایک لفظ کو مت آسرا بنا
گر پھر بنا مجھے تو بنامِ خدا بنا
وہ درد ہیں کہ جن کا بیاں بھی نہیں کوئی
رہتا ہے گھر ہمارا سدا کربلا بنا
اک زخمِ دل تھا سو تھا تمہارا دیا ہوا
یوں مت کہو کہ کیا ہوا بولو کہ کیا بنا
تھا اس جہان میں بھی تماشائی میں کوئی
وہ کیا ہے اس جہاں میں جو میرے بنِا بنا
تازہ ہیں خاک میں بھی وہی ولولے حکیم
اک زخم کہہ رہا ہے کہ دل ہے نیا بنا