خورشیداحمدخورشید
محفلین
غزل پیش ِخدمت ہے- ایک پنجابی محاورے کے استعمال کی اجازت کے ساتھ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
یہ شہر ہے بولنے والوں کا پر بولنے والا کوئی نہیں
بینا ہیں سبھی لیکن اب آنکھیں کھولنے والا کوئی نہیں
اس جور کے دور میں چاروں طرف ہیں آہیں سب مظلوموں کی
منصف ہے ترازو بھی ہے پُورا تولنے والا کوئی نہیں
یہ قربِ قیامت ہے شاید نفسا نفسی کا عالم ہے
ہیں درد میں سب ہی لیکن دُکھ سُکھ پھولنے والا کوئی نہیں
جِن مست شرابی آنکھوں کے ہوتے تھے لاکھوں پروانے
اُن آنکھوں کی مے کو پی کر اب ڈولنے والا کوئی نہیں
خورشید کا دل بہلاتا تھا جو میٹھے بولوں سے اکثر
وہ شخص نہیں تو کانوں میں رس گھولنے والا کوئی نہیں
بینا ہیں سبھی لیکن اب آنکھیں کھولنے والا کوئی نہیں
اس جور کے دور میں چاروں طرف ہیں آہیں سب مظلوموں کی
منصف ہے ترازو بھی ہے پُورا تولنے والا کوئی نہیں
یہ قربِ قیامت ہے شاید نفسا نفسی کا عالم ہے
ہیں درد میں سب ہی لیکن دُکھ سُکھ پھولنے والا کوئی نہیں
جِن مست شرابی آنکھوں کے ہوتے تھے لاکھوں پروانے
اُن آنکھوں کی مے کو پی کر اب ڈولنے والا کوئی نہیں
خورشید کا دل بہلاتا تھا جو میٹھے بولوں سے اکثر
وہ شخص نہیں تو کانوں میں رس گھولنے والا کوئی نہیں