خورشیداحمدخورشید
محفلین
ایک عزیز ہستی کی موت پر لکھی غزل پیش ِخدمت ہےاصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
قضا نے جو کیا ہم پر ستم اب تک نہیں بھولے
ترا ہم سے بچھڑ جانے کا غم اب تک نہیں بھولے
جھٹک کر سر نگاہِ ناز سے وہ دیکھنا تیرا
سنہری گیسوؤں کے پیچ و خم اب تک نہیں بھولے
ملائم نرم لہجے میں سبھی سے گفتگو کرنا
ترے لہجے کا وہ ریشم بھی ہم اب تک نہیں بھولے
حسیں چہرے کا پہرے دار تھا رخسار پر جو تِل
دمکتا موتیوں سا تل صنم اب تک نہیں بھولے
نزاکت میں نفاست میں ترا ثانی نہ تھا کوئی
مگر تیرے نصیبوں کے الم اب تک نہیں بھولے
حیا پاکیزگی بن کر جھلکتا تھا اُن آنکھوں سے
کبھی ناں لڑکھڑائے جو قدم اب تک نہیں بھولے
دعائے مغفرت کرنا کہ تیرا گھر ہو جنت میں
مرا معمول ہے تیری قسم اب تک نہیں بھولے
بنی تسکین کا باعث ہمیشہ ہی تری باتیں
ترے خورشید پر لطف و کرم اب تک نہیں بھولے
ترا ہم سے بچھڑ جانے کا غم اب تک نہیں بھولے
جھٹک کر سر نگاہِ ناز سے وہ دیکھنا تیرا
سنہری گیسوؤں کے پیچ و خم اب تک نہیں بھولے
ملائم نرم لہجے میں سبھی سے گفتگو کرنا
ترے لہجے کا وہ ریشم بھی ہم اب تک نہیں بھولے
حسیں چہرے کا پہرے دار تھا رخسار پر جو تِل
دمکتا موتیوں سا تل صنم اب تک نہیں بھولے
نزاکت میں نفاست میں ترا ثانی نہ تھا کوئی
مگر تیرے نصیبوں کے الم اب تک نہیں بھولے
حیا پاکیزگی بن کر جھلکتا تھا اُن آنکھوں سے
کبھی ناں لڑکھڑائے جو قدم اب تک نہیں بھولے
دعائے مغفرت کرنا کہ تیرا گھر ہو جنت میں
مرا معمول ہے تیری قسم اب تک نہیں بھولے
بنی تسکین کا باعث ہمیشہ ہی تری باتیں
ترے خورشید پر لطف و کرم اب تک نہیں بھولے