خورشیداحمدخورشید
محفلین
غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
توڑ کر بت خوف کا چھوڑی ہے جب آہ و فغاں
تمکنت کا منکشف ہونے لگا سرِ نِہاں
جب کسی بھی باغ کا ہو جائے غافل باغباں
بن کے رہ جاتا ہے جنگل پھر وہ سارا گلستاں
مہ جبینوں کی بیاں تعریف میں کیسے کروں
وہ اگر ہوں سامنے تو لڑکھڑاتی ہے زباں
آس کی مشعل لیے ہے جب کیا پیہم عمل
تیرگیِ بخت چھَٹ کر ہو گئی ہے ضوفشاں
سینچتا ہے آفتوں کی فصل کو برسوں کوئی
کوئی آفت بھی نہیں ہوتی بلائے ناگہاں
بارگاہِ ایزدی میں ہیں اٹھائے ہاتھ جب
کر رہا مجھ کو پریشاں ہے مرا عجزِ بیاں
اُس جگہ تک نقشِ پا ہیں سرورِ کونین کے
جِس کے رستے میں پڑی ہے دھول بن کر کہکشاں
تمکنت کا منکشف ہونے لگا سرِ نِہاں
جب کسی بھی باغ کا ہو جائے غافل باغباں
بن کے رہ جاتا ہے جنگل پھر وہ سارا گلستاں
مہ جبینوں کی بیاں تعریف میں کیسے کروں
وہ اگر ہوں سامنے تو لڑکھڑاتی ہے زباں
آس کی مشعل لیے ہے جب کیا پیہم عمل
تیرگیِ بخت چھَٹ کر ہو گئی ہے ضوفشاں
سینچتا ہے آفتوں کی فصل کو برسوں کوئی
کوئی آفت بھی نہیں ہوتی بلائے ناگہاں
بارگاہِ ایزدی میں ہیں اٹھائے ہاتھ جب
کر رہا مجھ کو پریشاں ہے مرا عجزِ بیاں
اُس جگہ تک نقشِ پا ہیں سرورِ کونین کے
جِس کے رستے میں پڑی ہے دھول بن کر کہکشاں