غزل - (2024-08-23)

نظم نما غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

مغنی نے جب پیار کا گیت گایا
تو سُن کر مجھے وہ بہت یاد آیا

یہ نرمی و سُرخی ہے اُن کے لبوں کی
گلابوں نے ان کو وہیں سے چُرایا

ہے مسحور کرتی ہوئی شام اتری
کسی نے ہے آنکھوں میں کاجل لگایا

افق پر جو چھائی ہے سُرخی اچانک
ترا چہرہ ہے شرم سے تمتمایا

ہوا نے سُریلی ہے سیٹی بجائی
کہ آواز دے کر ہے تُم نے بلایا

ہوائیں ہیں مہمیز گل وجد میں ہیں
ہے انگڑائی لے کر کوئی کسمسایا

چمکتے ہوئے موتیوں کی لڑی سی
صنم ہے کسی بات پر کھلکھلایا

حسیں قمقمے جل اٹھے ہیں اچانک
کسی نے ہے آنکھوں سے پردہ ہٹایا

شفا بسترِ مرگ سے پاگیا وہ
ترے لمس نے معجزہ کر دکھایا

خبر ان کے آنے کی دے کر کسی نے
اسے مژدہِ جاں فزا ہے سنایا

چراغِ محبت کو بجھنے نہ دینا
ہے جھونکا ہوا کا یہ پیغام لایا

شجر بن کے پھل پھول دینے لگا ہے
وہ الفت کا پودا جو تم نے لگایا

تصور میں ہر وقت خورشید ہے وہ
وہ جذبات بن کر ہے دل میں سمایا
 

الف عین

لائبریرین
ردیف ہی ایسی منتخب کی ہے کہ بیانی کی روانی خراب ہو گئی ہے۔ سادہ جملہ کیا ہے، سمایا ہے، بجائی ہے وغیرہ کو بالترتیب ہے کیا، ہے سمایا اور ہے بجائی بنا دینے سے مصرع رواں نہیں رہتا۔
پہلے دونوں اشعار past indefinite tense کی وجہ سے بہتر لگ رہے ہیں لیکن پھر Imperfect tenseہو گیا ہے! آخری اشعار پھر درست صیغے کی وجہ سے عدم روانی کا شکار نہیں۔ ویسے اشعار میں اور کوئی سقم نظر نہیں آ رہا
 
ردیف ہی ایسی منتخب کی ہے کہ بیانی کی روانی خراب ہو گئی ہے۔ سادہ جملہ کیا ہے، سمایا ہے، بجائی ہے وغیرہ کو بالترتیب ہے کیا، ہے سمایا اور ہے بجائی بنا دینے سے مصرع رواں نہیں رہتا۔
پہلے دونوں اشعار past indefinite tense کی وجہ سے بہتر لگ رہے ہیں لیکن پھر Imperfect tenseہو گیا ہے! آخری اشعار پھر درست صیغے کی وجہ سے عدم روانی کا شکار نہیں۔ ویسے اشعار میں اور کوئی سقم نظر نہیں آ رہا
محترم استاد الف عین صاھب! توجہ فرمانے کا شکریہ۔ آپ کی ہدایات مشعلِ راہ ہیں۔آئندہ خیال رکھوں گا۔
 
Top