غزل - (2024-08-30)

غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ


پتنگے کو دیپک پہ مر جانے دیتے
صنم آخرت ہی سنور جانے دیتے

تری ٹھوکروں سے مرا ٹوٹتا دل
بکھرنے لگا تھا بکھر جانے دیتے

جو باعث بنا تیری بدنامیوں کا
وہ مرنے لگا تھا تو مر جانے دیتے

تھا پیرِ مئے خانہ مائل کرم پر
اے ساقی مرا جام بھر جانے دیتے

جنوں کا سمندر اگر جوش میں تھا
تو لہروں میں مجھ کو اتر جانے دیتے

وہ خورشید اہلِ خرد میں سے ہوتے
جنوں کو جو حد سے گذر جانے دیتے
 

الف عین

لائبریرین
غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ


پتنگے کو دیپک پہ مر جانے دیتے
صنم آخرت ہی سنور جانے دیتے
ایک تو یہ "صنم" سے مجھے لگتا ہے کہ بالی ووڈ کا کوئی گانا ہے! کلاسیکی طرز والا صنم آج کی زبان نہیں۔ ایسے الفاظ سے بچیں
دیپک کا ہندی لفظ بھی کھٹکتا ہے، دئے پر پتنگے کو.... آسان سا متبادل موجود تھا!
مگر مفہوم، کس کی آخرت، پتنگے کی؟

تری ٹھوکروں سے مرا ٹوٹتا دل
بکھرنے لگا تھا بکھر جانے دیتے
تکنیکی طور پر سقم نہیں

جو باعث بنا تیری بدنامیوں کا
وہ مرنے لگا تھا تو مر جانے دیتے
شتر گربہ ہے، ردیف میں inherent تخاطب کا ضمیر "تم" ہے۔ تو کے ساتھ "مر جانے دیتا" بیانیہ ہونا تھا۔ مفہوم یہ بھی کوئی خاص نہیں

تھا پیرِ مئے خانہ مائل کرم پر
اے ساقی مرا جام بھر جانے دیتے
مے خانہ میں مے محض دو حرفی باندھا جاتا ہے، "مَ اے" تین حرفی، بر وزن فعو غلط ہے
"اے"کی ے کا اسقاط گوارا نہیں

جنوں کا سمندر اگر جوش میں تھا
تو لہروں میں مجھ کو اتر جانے دیتے
لہروں میں اترنا؟ کچھ عجیب لگا، اگر سمندر دوسرے مصرعے میں لانے سے بچنا تھا تو "ساگر" استعمال کیا جا سکتا تھا

وہ خورشید اہلِ خرد میں سے ہوتے
جنوں کو جو حد سے گذر جانے دیتے
ٹھیک
 
محترم استاد الف عین صاحب! آپ کی ہدایات کے مطابق دوبارہ کوشش کی ہے ۔آپ سے نظرثانی کی درخواست ہے۔
پتنگے کو دیپک پہ مر جانے دیتے
صنم آخرت ہی سنور جانے دیتے

ایک تو یہ "صنم" سے مجھے لگتا ہے کہ بالی ووڈ کا کوئی گانا ہے! کلاسیکی طرز والا صنم آج کی زبان نہیں۔ ایسے الفاظ سے بچیں
دیپک کا ہندی لفظ بھی کھٹکتا ہے، دئے پر پتنگے کو.... آسان سا متبادل موجود تھا!
مگر مفہوم، کس کی آخرت، پتنگے کی؟
دیے پر پتنگے کو مر جانے دیتے
مری آخرت ہی سنور جانے دیتے
جو باعث بنا تیری بدنامیوں کا
وہ مرنے لگا تھا تو مر جانے دیتے


شتر گربہ ہے، ردیف میں inherent تخاطب کا ضمیر "تم" ہے۔ تو کے ساتھ "مر جانے دیتا" بیانیہ ہونا تھا۔ مفہوم یہ بھی کوئی خاص نہیں
چھڑانا تھا دامن مرے چارہ گر تو
مریضِ محبت کو مر جانے دیتے
تھا پیرِ مئے خانہ مائل کرم پر
اے ساقی مرا جام بھر جانے دیتے

"اے"کی ے کا اسقاط گوارا نہیں
مے خانہ میں مے محض دو حرفی باندھا جاتا ہے، "مَ اے" تین حرفی، بر وزن فعو غلط ہے
تھا پیرِ خرابات مائل کرم پر
لبا لب مرا جام بھر جانے دیتے
یا
پیالہ پیاسے کا بھر جانے دیتے
جنوں کا سمندر اگر جوش میں تھا
تو لہروں میں مجھ کو اتر جانے دیتے

لہروں میں اترنا؟ کچھ عجیب لگا، اگر سمندر دوسرے مصرعے میں لانے سے بچنا تھا تو "ساگر" استعمال کیا جا سکتا تھا
جنوں کے وہ ساگر میں جوشِ جنوں میں
اترنے لگا تھا اتر جانے دیتے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
محترم استاد الف عین صاحب! آپ کی ہدایات کے مطابق دوبارہ کوشش کی ہے ۔آپ سے نظرثانی کی درخواست ہے۔

دیے پر پتنگے کو مر جانے دیتے
مری آخرت ہی سنور جانے دیتے
درست
چھڑانا تھا دامن مرے چارہ گر تو
مریضِ محبت کو مر جانے دیتے
پہلے مصرع کا آخری لفظ تو، کوئی تخاطب سمجھے تو پھر شتر گربہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دوسرے کا انداز بیان ایسا ہے کہ دو لختی کا احتمال ہوتا ہے۔ پہلے میں یوں کہا جاتا کہ "علاج کیا ہی کیوں؟"
تھا پیرِ خرابات مائل کرم پر
لبا لب مرا جام بھر جانے دیتے
یا
پیالہ پیاسے کا بھر جانے دیتے
لبا لب.. والے مصرع کے ساتھ درست
جنوں کے وہ ساگر میں جوشِ جنوں میں
اترنے لگا تھا اتر جانے دیتے
مصرع اولی پہلے والا ہی رکھتے
جنوں کا وہ ساگر اگر جوش میں تھا
سمندر میں....
یا پورا شعر بدل کر یوں کہیں تو؟
جو سیل جنوں اس قدر جوش میں تھا
سمندر میں...
 
محترم استاد الف عین صاحب!
چھڑانا تھا دامن مرے چارہ گر تو
مریضِ محبت کو مر جانے دیتے

پہلے مصرع کا آخری لفظ تو، کوئی تخاطب سمجھے تو پھر شتر گربہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دوسرے کا انداز بیان ایسا ہے کہ دو لختی کا احتمال ہوتا ہے۔ پہلے میں یوں کہا جاتا کہ "علاج کیا ہی کیوں؟"
چھڑانا تھا دامن تو درماں نہ کرتے -----یا-------چھڑانا تھا دامن تو چارہ نہ کرتے
مریضِ محبت کو مر جانے دیتے

یا
جدا ہوکے جینے سے بہتر ہے مرنا
مریضِ محبت کو مرجانے دیتے
جنوں کے وہ ساگر میں جوشِ جنوں میں
اترنے لگا تھا اتر جانے دیتے

مصرع اولی پہلے والا ہی رکھتے
جنوں کا وہ ساگر اگر جوش میں تھا
سمندر میں....
یا پورا شعر بدل کر یوں کہیں تو؟
جو سیل جنوں اس قدر جوش میں تھا
سمندر میں...
جو سیل جنوں اس قدر جوش میں تھا
سمندر میں مجھ کو اتر جانے دیتے
یا
جو سیل جنوں اس قدر جوش میں تھا
تو ساگر میں مجھ کو اتر جانے دیتے
 

الف عین

لائبریرین
چھڑانا تھا دامن تو درماں نہ کرتے
بہتر مصرع ہے
دوسرے شعر میں بھی سمندر ہی بہتر ہے
 
Top