زلفِ لیلیٰ کا خَم نکلتا ہے
اور مجنوں کا دَم نکلتا ہے
دِل کو جتنا بھی چِیر کر دیکھو
آپ کا ہی تو غم نکلتا ہے
اُن کی یہ چھیڑ چھاڑ ہے ہم سے
ہم غریبوں کا دَم نکلتا ہے
ہم جو خُوشیوں کا نام لیتے ہیں
مُنہ سے اِک لفظ غم نکلتا ہے
زندگی دَم ہی بھر کی دی ہوتی
دَم بھی تو ایک دَم نکلتا ہے
مرنے والا کہاں ہے یہ صاحبؔ
آج کل گھر سے کم نکلتا ہے
اگست 10، 2014
*****
آخری تدوین: