غزل

کہیں حال کیا ہم نشینوں کے صاحب
کہ ہیں سانپ سب آستینوں کے صاحب
ترے وصل میں جیسے صدیاں بھی لمحہ
ترے ہجر میں دن مہینوں کے صاحب
مرے عشق کی شعلہ گرمی سے عاصم
دھڑکتے ہیں دل آبگینوں کے صاحب
 

منیب الف

محفلین
الف عین استاد محترم،
اپنی شاعری کی لڑیوں پر آپ کے مصلحانہ تبصروں کا منتظر ہوں۔
قلمی نام تبدیل کرنے کی وجہ سے یہ نئی آئی ڈی بنانی پڑی ہے۔
جزاک اللہ احسن الجزاء۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! اچھے اشعار ہیں !
ترے کے ساتھ صاحب کا استعمال عجیب سا لگ رہا ہے ۔ ساحب کے ساتھ عام طور پر ’’تو‘‘ کے بجائے آپ استعمال ہوتا ہے ۔
 
Top