غزل

سعید سعدی

محفلین
محبتوں کی کتاب ہے وہ
مری وفا کا نصاب ہے وہ

ہیں شب گزیدہ ہماری آنکھیں
سنا ہے کہ ماہتاب ہے وہ

گزر گیا ہے جو وقت اب تک
پلٹ کے دیکھیں تو خواب ہے وہ

نہیں ہے جو دسترس میں اپنی
گمان ہے وہ سراب ہے وہ

کسی نے پوچھا کہ زیست کیا ہے
کہا کہ مثلِ حباب ہے وہ

بھرا تھا ہم نے بھی دم کسی کا
تبھی سے زیرِ عتاب ہے وہ

جنوں اٹھاتا ہے دل کے پردے
وگرنہ کب بے حجاب ہے وہ

طلب ہو سچی تو دیکھ لینا
نوازتا بے حساب ہے وہ​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top