وجاہت حسین
محفلین
غزل
تب و تابِ عشق کی بات ہے، کہ یہ تابِ شمس و قمر نہیں
جسے تاب ہو تری دید کی، کوئی ایسی تابِ نظر نہیں
طلبِ زیارتِ یار کو، نہ سمجھ تو منزل و انتہا
یہ غبارِ منزلِ عشق ہے، مگر انتہائے سفر نہیں
ترا ذکر کرنے کے واسطے، نہیں احتیاجِ حروف اب
ترا نام ثبت ہے قلب پر، جو فقیرِ زیر و زبر نہیں
تُو جمال و حسن کی داستاں، میں نگارِ مصحفِ عشق ہوں
نہیں باب میرے وجود کا، کہ جو تیرے زیرِ اثر نہیں
عرب و عجم کے یہ مے کدے، ہیں سرور و کیف سے سب تہی
جو شکارِ قلب و جگر کرے، وہ نظر نہیں، وہ ہنر نہیں
یہ گزشتہ شب کا ہے واقعہ، کہ گلی سے آتی رہی صدا
کوئی گنگناتا تھا رات بھر، ابھی تیرا وقتِ سحر نہیں
یہ ہے راز حافظِؔ ہوش مند، تُو صفاتِ رب کا ہے آئینہ
ہو قضا و قدر کہ خیر و شر، کوئی ماورائے بشر نہیں
تب و تابِ عشق کی بات ہے، کہ یہ تابِ شمس و قمر نہیں
جسے تاب ہو تری دید کی، کوئی ایسی تابِ نظر نہیں
طلبِ زیارتِ یار کو، نہ سمجھ تو منزل و انتہا
یہ غبارِ منزلِ عشق ہے، مگر انتہائے سفر نہیں
ترا ذکر کرنے کے واسطے، نہیں احتیاجِ حروف اب
ترا نام ثبت ہے قلب پر، جو فقیرِ زیر و زبر نہیں
تُو جمال و حسن کی داستاں، میں نگارِ مصحفِ عشق ہوں
نہیں باب میرے وجود کا، کہ جو تیرے زیرِ اثر نہیں
عرب و عجم کے یہ مے کدے، ہیں سرور و کیف سے سب تہی
جو شکارِ قلب و جگر کرے، وہ نظر نہیں، وہ ہنر نہیں
یہ گزشتہ شب کا ہے واقعہ، کہ گلی سے آتی رہی صدا
کوئی گنگناتا تھا رات بھر، ابھی تیرا وقتِ سحر نہیں
یہ ہے راز حافظِؔ ہوش مند، تُو صفاتِ رب کا ہے آئینہ
ہو قضا و قدر کہ خیر و شر، کوئی ماورائے بشر نہیں