غزل

تیرہ شب سے بھی آگہی پائی.
نا رہا دل نہ دل لگی پائی.
آبلہ پا چلے ہیں تب تک ہم.
جب تلک تیری راگنی پائی.
دل کی ڈھرکن ہو چپ چلے جانا.
بعد مدت کے زندگی پائی.
ڈھونڈنے سے ضیا کہاں ملتی.
خود جلے ہیں تو روشنی پائی.
آج غیروں نے خوب سج دھج سے.
جب اٹھایا تری کمی پائی.
کیا تعلق ہے لفظ عابد سے.
جب لیا آنکھ میں نمی پائی.
کفن میں ہیں حجاب رخ سے ہٹا.
جیتے جی تیری کج روی پائی.
بھول کر چومنے کی خواہش کی.
پھر اسی دن سے دشمنی پائی.
تیرے جلووں سے طور راکھ ہوا.
راکھ سے چشم روشنی پائی.
روح نے سب کرید ڈالے نقش.
شکل جن پر تجاذبی پائی.
جب ترے نام سے کیا آغاز.
پھر تلفظ میں تازگی پائی.
یوں تو سجاد حشر برپا تھا.
ان کے در پہ سلامتی پائی.
 

الف عین

لائبریرین
تکنیکی طور پر ایک آدھ غلطی ہی ہے جیسے کفن کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے
لیکن آپ کا مسئلہ یہ لگتا ہے کہ کسی طرح بحر و عروض کی پابندی پوری ہو جائے ۔ دوسروں کی غزل سمجھ کر اپنی غزل پر غور کریں کہ کیا واقعی درست مطلب نکلتا ہے یا نہیں ۔ مثلاً
آبلہ پا چلے ہیں تب تک ہم.
جب تلک تیری راگنی پائی
میں راگنی کا تعلق سمجھ میں نہیں آتا یہاں چھاؤں یا منزل کا ذکر مطلوب تھا
 
تیرہ شب سے بھی آگہی پائی.
نا رہا دل نہ دل لگی پائی.
آبلہ پا چلے ہیں تب تک ہم.
جب تلک تیری راگنی پائی.
دل کی ڈھرکن ہو چپ چلے جانا.
بعد مدت کے زندگی پائی.
ڈھونڈنے سے ضیا کہاں ملتی.
خود جلے ہیں تو روشنی پائی.
آج غیروں نے خوب سج دھج سے.
جب اٹھایا تری کمی پائی.
کیا تعلق ہے لفظ عابد سے.
جب لیا آنکھ میں نمی پائی.
ہیں کفن میں حجاب رخ سے ہٹا.
جیتے جی تیری کج روی پائی.
بھول کر چومنے کی خواہش کی.
پھر اسی دن سے دشمنی پائی.
تیرے جلووں سے طور راکھ ہوا.
راکھ سے چشم روشنی پائی.
روح نے سب کرید ڈالے نقش.
شکل جن پر تجاذبی پائی.
جب ترے نام سے کیا آغاز.
پھر تلفظ میں تازگی پائی.
یوں تو سجاد حشر برپا تھا.
ان کے در پہ سلامتی پائی.
 
Top