سعید احمد سجاد
محفلین
تیرہ شب سے بھی آگہی پائی.
نا رہا دل نہ دل لگی پائی.
آبلہ پا چلے ہیں تب تک ہم.
جب تلک تیری راگنی پائی.
دل کی ڈھرکن ہو چپ چلے جانا.
بعد مدت کے زندگی پائی.
ڈھونڈنے سے ضیا کہاں ملتی.
خود جلے ہیں تو روشنی پائی.
آج غیروں نے خوب سج دھج سے.
جب اٹھایا تری کمی پائی.
کیا تعلق ہے لفظ عابد سے.
جب لیا آنکھ میں نمی پائی.
کفن میں ہیں حجاب رخ سے ہٹا.
جیتے جی تیری کج روی پائی.
بھول کر چومنے کی خواہش کی.
پھر اسی دن سے دشمنی پائی.
تیرے جلووں سے طور راکھ ہوا.
راکھ سے چشم روشنی پائی.
روح نے سب کرید ڈالے نقش.
شکل جن پر تجاذبی پائی.
جب ترے نام سے کیا آغاز.
پھر تلفظ میں تازگی پائی.
یوں تو سجاد حشر برپا تھا.
ان کے در پہ سلامتی پائی.
نا رہا دل نہ دل لگی پائی.
آبلہ پا چلے ہیں تب تک ہم.
جب تلک تیری راگنی پائی.
دل کی ڈھرکن ہو چپ چلے جانا.
بعد مدت کے زندگی پائی.
ڈھونڈنے سے ضیا کہاں ملتی.
خود جلے ہیں تو روشنی پائی.
آج غیروں نے خوب سج دھج سے.
جب اٹھایا تری کمی پائی.
کیا تعلق ہے لفظ عابد سے.
جب لیا آنکھ میں نمی پائی.
کفن میں ہیں حجاب رخ سے ہٹا.
جیتے جی تیری کج روی پائی.
بھول کر چومنے کی خواہش کی.
پھر اسی دن سے دشمنی پائی.
تیرے جلووں سے طور راکھ ہوا.
راکھ سے چشم روشنی پائی.
روح نے سب کرید ڈالے نقش.
شکل جن پر تجاذبی پائی.
جب ترے نام سے کیا آغاز.
پھر تلفظ میں تازگی پائی.
یوں تو سجاد حشر برپا تھا.
ان کے در پہ سلامتی پائی.