غزل

اک بھٹکتی ہوئی بے مول دعا ہوں شاید.
ایک سائل کی میں گمنام صدا ہوں شاید.
معاف کرنا جو کلائی سے تجھے پکڑا ہے.
فرط جذبات میں بس بھول گیا ہوں شاید.
دسترس میں ہو تو پھر بھی نہ بھلا پاؤں گا.
دیدہ نم آج بھی محفل سے اٹھا ہوں شاید.
تیرے قابل جو نہ تھا آگ لگائی کیوں یہ.
کج ادا ئی کے ترازو میں تلا ہوں شاید.
کل بھی تنہا ہی تھا اور آج بھی تنہا ہوں میں.
اس لئے خواب یہاں چھوڑ چلا ہوں شاید.
رات یوں دیر ہوئی گھر مجھے آتے آتے.
کرچیاں دل کی وہاں چنتا رہا ہوں شاید.
حال دل پوچھ نہ ناکام محبت سے مرا.
یوں بھی بےلوث محبت کی سزا ہوں شاید.
قبر تک لے گئی مجھکو تری بالادستی.
اپنی معصوم سی خواہش کا سلہ ہوں شاید.
اس شفق نے ترے رخسار سے سرخی مانگی.
اس لئے محو نظر کب سے کھڑا ہوں شاید.
محو پرواز تھا سجاد خلاؤں میں کہیں.
ہو کے مدہوش وہاں سے میں گرا ہوں شاید.
 

الف عین

لائبریرین
شاید ردیف اکثر اشعار میں با معنی نہیں لگتی

اک بھٹکتی ہوئی بے مول دعا ہوں شاید.
ایک سائل کی میں گمنام صدا ہوں شاید.
بے مول، نیم فارسی نیم ہندی۔ کچھ اور صفت استعمال کرو

معاف کرنا جو کلائی سے تجھے پکڑا ہے.
فرط جذبات میں بس بھول گیا ہوں شاید.
معاف یہاں 'ماف' تقطیع ہو رہا ہے جو غلط ہے
معذرت، میں نے کلائی سے جو پکڑا ہے تجھے
کر دیں

دسترس میں ہو تو پھر بھی نہ بھلا پاؤں گا.
دیدہ نم آج بھی محفل سے اٹھا ہوں شاید.
.... کس کی دسترس میں کون؟ واضح نہیں

تیرے قابل جو نہ تھا آگ لگائی کیوں یہ.
کج ادا ئی کے ترازو میں تلا ہوں شاید.
یہ بھی واضح نہیں

کل بھی تنہا ہی تھا اور آج بھی تنہا ہوں میں.
اس لئے خواب یہاں چھوڑ چلا ہوں شاید.
یہ بھی واضح نہیں

رات یوں دیر ہوئی گھر مجھے آتے آتے.
کرچیاں دل کی وہاں چنتا رہا ہوں شاید.
درست

حال دل پوچھ نہ ناکام محبت سے مرا.
یوں بھی بےلوث محبت کی سزا ہوں شاید.
نہ ناکام میں تنافر ہے
کسی ناکام محبت سے مرا حال نہ پوچھ

قبر تک لے گئی مجھکو تری بالادستی.
اپنی معصوم سی خواہش کا سلہ ہوں شاید.
بالادستی کے سبب؟ ابلاغ اس کا بھی نہیں ہو رہا

اس شفق نے ترے رخسار سے سرخی مانگی.
اس لئے محو نظر کب سے کھڑا ہوں شاید.
دو لخت ہے، ربط نہیں بن رہا

محو پرواز تھا سجاد خلاؤں میں کہیں.
ہو کے مدہوش وہاں سے میں گرا ہوں شاید.
ٹھیک
 
شاید ردیف اکثر اشعار میں با معنی نہیں لگتی

اک بھٹکتی ہوئی بے مول دعا ہوں شاید.
ایک سائل کی میں گمنام صدا ہوں شاید.
بے مول، نیم فارسی نیم ہندی۔ کچھ اور صفت استعمال کرو

معاف کرنا جو کلائی سے تجھے پکڑا ہے.
فرط جذبات میں بس بھول گیا ہوں شاید.
معاف یہاں 'ماف' تقطیع ہو رہا ہے جو غلط ہے
معذرت، میں نے کلائی سے جو پکڑا ہے تجھے
کر دیں

دسترس میں ہو تو پھر بھی نہ بھلا پاؤں گا.
دیدہ نم آج بھی محفل سے اٹھا ہوں شاید.
.... کس کی دسترس میں کون؟ واضح نہیں

تیرے قابل جو نہ تھا آگ لگائی کیوں یہ.
کج ادا ئی کے ترازو میں تلا ہوں شاید.
یہ بھی واضح نہیں

کل بھی تنہا ہی تھا اور آج بھی تنہا ہوں میں.
اس لئے خواب یہاں چھوڑ چلا ہوں شاید.
یہ بھی واضح نہیں

رات یوں دیر ہوئی گھر مجھے آتے آتے.
کرچیاں دل کی وہاں چنتا رہا ہوں شاید.
درست

حال دل پوچھ نہ ناکام محبت سے مرا.
یوں بھی بےلوث محبت کی سزا ہوں شاید.
نہ ناکام میں تنافر ہے
کسی ناکام محبت سے مرا حال نہ پوچھ

قبر تک لے گئی مجھکو تری بالادستی.
اپنی معصوم سی خواہش کا سلہ ہوں شاید.
بالادستی کے سبب؟ ابلاغ اس کا بھی نہیں ہو رہا

اس شفق نے ترے رخسار سے سرخی مانگی.
اس لئے محو نظر کب سے کھڑا ہوں شاید.
دو لخت ہے، ربط نہیں بن رہا

محو پرواز تھا سجاد خلاؤں میں کہیں.
ہو کے مدہوش وہاں سے میں گرا ہوں شاید.
ٹھیک
سر شکریہ میں کوشش کرتا ہوں اس کو درست کرنے کی
 
شاید ردیف اکثر اشعار میں با معنی نہیں لگتی

اک بھٹکتی ہوئی بے مول دعا ہوں شاید.
ایک سائل کی میں گمنام صدا ہوں شاید.
بے مول، نیم فارسی نیم ہندی۔ کچھ اور صفت استعمال کرو

معاف کرنا جو کلائی سے تجھے پکڑا ہے.
فرط جذبات میں بس بھول گیا ہوں شاید.
معاف یہاں 'ماف' تقطیع ہو رہا ہے جو غلط ہے
معذرت، میں نے کلائی سے جو پکڑا ہے تجھے
کر دیں

دسترس میں ہو تو پھر بھی نہ بھلا پاؤں گا.
دیدہ نم آج بھی محفل سے اٹھا ہوں شاید.
.... کس کی دسترس میں کون؟ واضح نہیں

تیرے قابل جو نہ تھا آگ لگائی کیوں یہ.
کج ادا ئی کے ترازو میں تلا ہوں شاید.
یہ بھی واضح نہیں

کل بھی تنہا ہی تھا اور آج بھی تنہا ہوں میں.
اس لئے خواب یہاں چھوڑ چلا ہوں شاید.
یہ بھی واضح نہیں


حال دل پوچھ نہ ناکام محبت سے مرا.
یوں بھی بےلوث محبت کی سزا ہوں شاید.
نہ ناکام میں تنافر ہے
کسی ناکام محبت سے مرا حال نہ پوچھ

قبر تک لے گئی مجھکو تری بالادستی.
اپنی معصوم سی خواہش کا سلہ ہوں شاید.
بالادستی کے سبب؟ ابلاغ اس کا بھی نہیں ہو رہا

اس شفق نے ترے رخسار سے سرخی مانگی.
اس لئے محو نظر کب سے کھڑا ہوں شاید.
دو لخت ہے، ربط نہیں بن رہا

محو پرواز تھا سجاد خلاؤں میں کہیں.
ہو کے مدہوش وہاں سے میں گرا ہوں شاید.
ٹھیک

اک بھٹکتی ہوئی مجبور دعا ہوں شاید.
ایک سائل کی میں گمنام صدا ہوں شاید.
معذرت، میں نے کلائی سے جو پکڑا ہے تجھے
فرط جذبات میں بس بھول گیا ہوں شاید.
کسی ناکام محبت سے مرا حال نہ پوچھ.
یوں بھی بےلوث محبت کی سزا ہوں شاید.
ٹھوکریں سارے جہاں کی جو مقدر ہیں مرا.
اپنی معصوم سی خواہش کا سلہ ہوں شاید.
دسترس میں نہیں میرے کہ بھلا پاؤں تجھے.
دیدہ نم آج بھی محفل سے اٹھا ہوں شاید.
رات یوں دیر ہوئی گھر مجھے آتے آتے.
کرچیاں دل کی وہاں چنتا رہا ہوں شاید.
میرے ہر خواب کی تعبیر ادھوری نکلی.
اس لئے خواب یہاں چھوڑ چلا ہوں شاید.
پیاس میری کو نہ خاطر میں کبھی لائے وہ.
کج ادائی کے ترازو میں تلا ہوں شاید.
محو پرواز تھا سجاد خلاؤں میں کہیں.
ہو کے مدہوش وہاں سے میں گرا ہوں شاید.
 

الف عین

لائبریرین
جو واضح نہیں تھے ان کی وضاحت تو اب بھی نہیں کی گئی!
بہت بہتر ہو گئی ہے غزل
پیاس مؤنث ہے، اس لیے میری درست ہے، لیکن 'پیاس میری' پسند نہیں آیا
پیاس کو میری وہ خاطر میں نہیں لائے کبھی
بہتر مصرع ہو گا
 
جو واضح نہیں تھے ان کی وضاحت تو اب بھی نہیں کی گئی!
بہت بہتر ہو گئی ہے غزل
پیاس مؤنث ہے، اس لیے میری درست ہے، لیکن 'پیاس میری' پسند نہیں آیا
پیاس کو میری وہ خاطر میں نہیں لائے کبھی
بہتر مصرع ہو گا
شکریہ سر آگے لکھتے ہوئے مزید احتیاط کروں گا
 
Top