غزل

سر اصلاح کے لئے پیش خدمت ہوں
مے کشی چیز ہے کیا مجھکو بتاؤ یارو.
جان لب پہ ہے کوئی جام پلاؤ یارو.
کس قدر لطف ہے اب قصئہ جاں سننے میں.
داستاں اس کی ہی محفل میں سناؤ یارو.
روٹھ جائے نہ مرا چاہنے والا مجھ سے.
میرے نزدیک نہ تم شور مچاؤ یارو.
خواب یادوں کے مجھے نیند میں بہلاتے ہیں.
ہوں جو سویا تو مجھے اب نہ جگاؤ یارو.
اس نے کانٹے جو بکھیرے مری راہوں میں کبھی.
بکھرا رہنے دو انہیں اب نہ اٹھاؤ یارو.
دل تو سجاد کا جلتا ہے اسی کی خاطر.
میرے گھر میں کوئی شمع نہ جلاؤ یارو
 
Top