غزل

توقیر عالم

محفلین
خواہشوں کے سراب سے نکلے
زندگی اک عذاب سے نکلے
دل کی اب تیرگی مٹانے کو
کوئی صورت حجاب سے نکلے
رقص میں مے کدہ رہے شب بھر
ایسی مستی شراب سے نکلے
اب سرِ شام چاندنی غم کی
درد اوڑھے شباب سے نکلے
زندگی کا لباس اترا تو
یوں لگا جیسے خواب سے نکلے

توقیر عالم
 

فلسفی

محفلین

الف عین

لائبریرین
.نکلے ردیف دو ایک جگہ درست نہیں
مطلع ہی دیکھیں
زندگی کے عذاب سے نکلے
درست ہو سکتا ہے
 
Top