غزل

سحر کائنات

محفلین
میری زندگی تو فراق ہے ،وہ اَزَل سے دل میں مکیں سہی .
وہ نگاہ ِشوق سے دور ہیں ،رگ جاں سے لاکھ قریں سہی .
ہمیں جان دینی ہے ایک دن ،وہ کسی طرح وہ کہیں سہی .
ہمیں آپ کھینچیے دار پر ،جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی .
سر طور ہو سر حشر ہو ،ہمیں انتظار قبول ہے .
وہ کبھی ملیں ، وہ کہیں ملے ،وہ کبھی سہی ، وہ کہیں سہی .
نا ہو ان پے جو میرا بس نہیں ،کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں .
میں انہی کا تھا ، میں انہی کا ہوں ،وہ میرے نہیں ، تو نہیں سہی .
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے ،میری آرزو کا بھرم رہے .
تیری انجمن میں اگر نہیں ،تیری انجمن کے قریں سہی .
تیرا در تو ہم کو نا مل سکا ،تیری راہگزر کی زمین سہی .
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے ،جو وہاں نہیں تو یہی سہی .
میری زندگی کا نصیب ہے ،نہیں دور مجھ سے قریب ہے .
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے ،وہ اگر نہیں تو نہیں سہی .
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے ،اسے حشر پر نا اُٹھائیے .
جو کریں گے آپ ستم وہاں ،وہ ابھی سہی ، وہ یہیں سہی .
اُسے دیکھنے کی جو لو لگی ،تو نصیر دیکھ ہی لینگے ہم .
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو ،وہ ہزار پردہ نشین سہی
 
Top