رشید حسرت
محفلین
اگرچِہ دُشوار تھا۔
اگرچہ دُشوار تھا مگر زیر کر لِیا تھا
انا کا رستہ سہل سمجھ کر جو سر لِیا تھا
وُہ کہکشاؤں کی حد سے آگے کہیں بسا ھے
طلب میں جِس کی زمِیں پہ بوسِیدہ گھر لِیا تھا
گُلوں کی چاہت میں ایک دِن کیا بِچھایا ھوگا
کہ ھم نے کانٹوں سے اپنا دامان بھر لِیا تھا
بڑھایا اُس نے جو گرم جوشی سے ھاتھ یارو
نہیں تھا مسلک اگرچِہ نذرانہ، پر لِیا تھا
اُسی کا بخشا ھؤا تھا سب کُچھ تو دیر کیسی؟
بس اِک اِشارے پہ کاسۂِ جان دھر لِیا تھا
دِلِ شِکستہ کی مُدّتوں تک خبر نہ آئی
کُھلا کہ مُٹھی میں تُو نے اے فِتنہ گر لِیا تھا
عدو نے چالوں سے چِت کِیا ھے رشِید حسرتؔ
وگرنہ ھم نے بھی اسپ تو نامور لِیا تھا۔
رشِید حسرتؔ۔
اگرچہ دُشوار تھا مگر زیر کر لِیا تھا
انا کا رستہ سہل سمجھ کر جو سر لِیا تھا
وُہ کہکشاؤں کی حد سے آگے کہیں بسا ھے
طلب میں جِس کی زمِیں پہ بوسِیدہ گھر لِیا تھا
گُلوں کی چاہت میں ایک دِن کیا بِچھایا ھوگا
کہ ھم نے کانٹوں سے اپنا دامان بھر لِیا تھا
بڑھایا اُس نے جو گرم جوشی سے ھاتھ یارو
نہیں تھا مسلک اگرچِہ نذرانہ، پر لِیا تھا
اُسی کا بخشا ھؤا تھا سب کُچھ تو دیر کیسی؟
بس اِک اِشارے پہ کاسۂِ جان دھر لِیا تھا
دِلِ شِکستہ کی مُدّتوں تک خبر نہ آئی
کُھلا کہ مُٹھی میں تُو نے اے فِتنہ گر لِیا تھا
عدو نے چالوں سے چِت کِیا ھے رشِید حسرتؔ
وگرنہ ھم نے بھی اسپ تو نامور لِیا تھا۔
رشِید حسرتؔ۔