محمد عمیر پیرزادہ
محفلین
مجھے تم سے کوئی غرض نہیں،مری تم سے کوئی طلب نہیں
مری تم پہ کیوں ہیں نوازشیں،مرے علم میں وہ سبب نہیں
نہ ہی مجھ پہ کوئی فریفتہ، نہ کسی کی مجھ پہ نظر پڑی
نہ ہی آنکھ مجھ سے کوئی لڑی، کبھی ڈھایا میں نے غضب نہیں
سبھی میرے دل کے قریب ہیں، مرے کتنے اعلیٰ نصیب ہیں
کیا کسی کے میں بھی قریب ہوں، مرا اونچا نام و نسب نہیں
کیوں حقیر اتنی حیات ہے، نہیں اس سے کوئی نجات ہے
پیا سب نے آبِ حیات ہے، کوئی جان جان بہ لب نہیں
ترے در پہ میں ہی پڑا رہا، تو انا پہ اپنی اڑا رہا
ترے راستوں سے پلٹ گیا، وہی راستے، نہیں اب نہیں
مری تم پہ کیوں ہیں نوازشیں،مرے علم میں وہ سبب نہیں
نہ ہی مجھ پہ کوئی فریفتہ، نہ کسی کی مجھ پہ نظر پڑی
نہ ہی آنکھ مجھ سے کوئی لڑی، کبھی ڈھایا میں نے غضب نہیں
سبھی میرے دل کے قریب ہیں، مرے کتنے اعلیٰ نصیب ہیں
کیا کسی کے میں بھی قریب ہوں، مرا اونچا نام و نسب نہیں
کیوں حقیر اتنی حیات ہے، نہیں اس سے کوئی نجات ہے
پیا سب نے آبِ حیات ہے، کوئی جان جان بہ لب نہیں
ترے در پہ میں ہی پڑا رہا، تو انا پہ اپنی اڑا رہا
ترے راستوں سے پلٹ گیا، وہی راستے، نہیں اب نہیں
مدیر کی آخری تدوین: