Faizan ahmed
محفلین
ترا خیال ہی بوئے گلاب جیسا ہے
ترے جمال کانشہ شراب جیسا ہے
فراق یار میں ہر پل عذاب جیسا ہے
سلگ سلگ کے ہوا دل کباب جیسا ہے
گواہی دیتا ہے ہر عضو اس کے باطن کی
نظر اٹھائے تو چہرہ کتا ب جیسا ہے
ذرا سنبھال کے آگے قدم بڑھاؤ تم
شباب آیا ابھی موج آب جیسا ہے
سکون دل کو ترستی ہے جیسے دنیا اب
نشان رخ پہ ابھی اضطراب جیسا ہے
کبھی وہ کاش دے جنبش لبوں کو بھی اپنے
سکوت اس کا ہمیشہ عتاب جیسا ہے
ملے ہیں خاک میں آئے زمیں پہ جتنے ہیں
غرور روئے زمیں پر حباب جیسا ہے
فیضان احمد اعظمی
ترے جمال کانشہ شراب جیسا ہے
فراق یار میں ہر پل عذاب جیسا ہے
سلگ سلگ کے ہوا دل کباب جیسا ہے
گواہی دیتا ہے ہر عضو اس کے باطن کی
نظر اٹھائے تو چہرہ کتا ب جیسا ہے
ذرا سنبھال کے آگے قدم بڑھاؤ تم
شباب آیا ابھی موج آب جیسا ہے
سکون دل کو ترستی ہے جیسے دنیا اب
نشان رخ پہ ابھی اضطراب جیسا ہے
کبھی وہ کاش دے جنبش لبوں کو بھی اپنے
سکوت اس کا ہمیشہ عتاب جیسا ہے
ملے ہیں خاک میں آئے زمیں پہ جتنے ہیں
غرور روئے زمیں پر حباب جیسا ہے
فیضان احمد اعظمی