سید سیف اللہ حسینی
محفلین
راستہ اپنے لئے خود ہی بنانے والے،
ہم نہیں رہ پہ کسی اور کی جانے والے۔
حق بیانی کےلئے رسمِ جہاں توڑی تھی،
بس اسی روز سے دشمن ہیں زمانے والے۔
آشنا خود تو نہیں راہِ وفا سے یکسر،
راستہ ہم کو یہ رہبر ہیں دکھانے والے۔
کشتیاں توڑ کے میداں میں چلے آئے ہیں،
ہم نہیں ہیں کبھی منہ پھیر کے جانے والے۔
دل میں پھولوں کی تمنا سے بھلا کیا ہوگا،
اپنے بازو بھی ہوں کانٹوں سے نبھانے والے۔
ہر طرف سیؔف ہیں آوازیں یہاں نفرت کی،
نغمے الفت کے ہوں کوئی تو سنانے والے۔
ہم نہیں رہ پہ کسی اور کی جانے والے۔
حق بیانی کےلئے رسمِ جہاں توڑی تھی،
بس اسی روز سے دشمن ہیں زمانے والے۔
آشنا خود تو نہیں راہِ وفا سے یکسر،
راستہ ہم کو یہ رہبر ہیں دکھانے والے۔
کشتیاں توڑ کے میداں میں چلے آئے ہیں،
ہم نہیں ہیں کبھی منہ پھیر کے جانے والے۔
دل میں پھولوں کی تمنا سے بھلا کیا ہوگا،
اپنے بازو بھی ہوں کانٹوں سے نبھانے والے۔
ہر طرف سیؔف ہیں آوازیں یہاں نفرت کی،
نغمے الفت کے ہوں کوئی تو سنانے والے۔