راسخ شاہد
محفلین
کیا ملے آج غمِ یار کے مارے ہوئے لوگ؟
کیسے ہیں! عشق کے بازار کے مارے ہوئے لوگ؟
غم نہ تھا عشق میں گر جان بھی جاتی ، لیکن
ہم رہے عشق میں انکار کے مارے ہوئے لوگ
ہم سے دنیا کے مسائل کی خبر مت پوچھو
ہم تو ہیں عالمِ اسرار کے مارے ہوئے لوگ
دردِ دل ان سے نہ پوچھو ، نہ سمجھ آئے گا
جو نہ ہیں یار نہ اغیار کے مارے ہوئے لوگ
دشمنِ جان نہ اِس پار نہ اُس پار کوئی
ہم تو ہیں بیچ کی دیوار کے مارے ہوئے لوگ
کتنی حسرت وہ نگاہوں میں لئے پھرتے ہیں
ہائے ! وہ وعدۂ دیدار کے مارے ہوئے لوگ
اپنے ہاتھوں سے جو خود اپنا گلا گھونٹتے ہیں
ہیں خدایا ! تیرے سنسار کے مارے ہوئے لوگ
جن کی نظروں میں کوئی راہ نہ منزل کوئی
ان کو ہی کہتے ہیں رفتار کے مارے ہوئے لوگ
سانحے روز گزرتے ہیں مگر اب راسؔخ
دیکھئیے شہر میں غم خوار کے مارے ہوئے لوگ
|| راسؔخ شاہد ||
کیسے ہیں! عشق کے بازار کے مارے ہوئے لوگ؟
غم نہ تھا عشق میں گر جان بھی جاتی ، لیکن
ہم رہے عشق میں انکار کے مارے ہوئے لوگ
ہم سے دنیا کے مسائل کی خبر مت پوچھو
ہم تو ہیں عالمِ اسرار کے مارے ہوئے لوگ
دردِ دل ان سے نہ پوچھو ، نہ سمجھ آئے گا
جو نہ ہیں یار نہ اغیار کے مارے ہوئے لوگ
دشمنِ جان نہ اِس پار نہ اُس پار کوئی
ہم تو ہیں بیچ کی دیوار کے مارے ہوئے لوگ
کتنی حسرت وہ نگاہوں میں لئے پھرتے ہیں
ہائے ! وہ وعدۂ دیدار کے مارے ہوئے لوگ
اپنے ہاتھوں سے جو خود اپنا گلا گھونٹتے ہیں
ہیں خدایا ! تیرے سنسار کے مارے ہوئے لوگ
جن کی نظروں میں کوئی راہ نہ منزل کوئی
ان کو ہی کہتے ہیں رفتار کے مارے ہوئے لوگ
سانحے روز گزرتے ہیں مگر اب راسؔخ
دیکھئیے شہر میں غم خوار کے مارے ہوئے لوگ
|| راسؔخ شاہد ||