غزل

شفق،جگنو، ستارا ۔۔۔ بولتا ہے
تری باتوں میں نغمہ بولتا ہے
کہیں ٹھکرانہ دے اک روز مجھکو
مجھے وہ اپنی دنیا بولتا ہے
وفا اخلاص چاہت گم ہوئی اب
یہاں ہر سمت پیسہ بولتا ہے
تو کتنا خوش ہے اپنی زندگی سے
یہ سچ چہرا تمہارا بو لتا ہے
اک حد تک کرتا ہے برداشت ورنہ
خلاف ظلم گونگا بولتا ہے
خورشید بھارتی
انڈیا
 

محمد فائق

محفلین
شفق،جگنو، ستارا ۔۔۔ بولتا ہے
تری باتوں میں نغمہ بولتا ہے
کہیں ٹھکرانہ دے اک روز مجھکو
مجھے وہ اپنی دنیا بولتا ہے
وفا اخلاص چاہت گم ہوئی اب
یہاں ہر سمت پیسہ بولتا ہے
تو کتنا خوش ہے اپنی زندگی سے
یہ سچ چہرا تمہارا بو لتا ہے
اک حد تک کرتا ہے برداشت ورنہ
خلاف ظلم گونگا بولتا ہے
خورشید بھارتی
انڈیا
تو کتنا۔۔۔۔۔۔
یہ سچ چہرہ۔۔۔۔
یہاں آپ پہلے مصرعے میں تو سے مخاطب ہیں دوسرے میں
تمہارا۔۔۔۔
 
شفق،جگنو، ستارا ۔۔۔ بولتا ہے
میرے خیال میں یہاں گرامر کے حساب سے ’’بولتے ہیں‘‘ آنا چاہیے۔

کہیں ٹھکرانہ دے اک روز مجھکو
مجھے وہ اپنی دنیا بولتا ہے
دوسرے مصرعے میں وہ کے بجائے جو زیادہ مناسب رہتا۔ علاوہ ازیں دوسرے مصرعے کا اسلوب بھی غیر فصیح ہے ۔۔۔ یہاں بولنا کے بجائے کہنا افصح ہوگا۔

وفا اخلاص چاہت گم ہوئی اب
یہاں ہر سمت پیسہ بولتا ہے
گم ہوئی کے بجائے گم ہوئے ہونا چاہیے۔

تو کتنا خوش ہے اپنی زندگی سے
یہ سچ چہرا تمہارا بو لتا ہے
فائق نشاندہی کر چکے کہ شعر شترگربہ کا شکار ہے۔
سچ اور چہرہ میں تنافر بھی ہے۔ ایک تجویز
تو کتنا خوش ہے اپنی زندگی سے
یہ سچ خود تیرا چہرہ بولتا ہے

اک حد تک کرتا ہے برداشت ورنہ
خلاف ظلم گونگا بولتا ہے
پہلا مصرع بحر میں نہیں ۔۔۔ حد کی ح کا اک کی ک کے ساتھ وصال جائز نہیں ۔۔۔ تقطیع میں اکد آ رہا ہے۔
خلافِ ظلم کی ترکیب بھی کچھ زیادہ ہی پر تکلف معلوم ہوتی ہے۔۔۔
بڑھے جب ظلم، گونگا بولتا ہے ۔۔۔ کہا جا سکتا ہے تاہم اس صورت میں بھی اصل مصرع کی مثل ’’بھی‘‘ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
 
Top