غزل

محمد فائق

محفلین
دلِ کم بخت کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے خواب
جیسے صحرا میں دکھا کرتے ہیں پیاسے کو سراب

بے ثباتی، بے یقینی، بے وفائی، دھوکا
انہیں ابواب کے مابین ہے دنیا کا نصاب

نیند تو دے نہ سکی خیر کتابوں نے مگر
دے دیا ہے شبِ تنہائی مجھے تیرا جواب

سوچتا ہے کیا زمانہ ہمیں کیا لینا ہے
ہم تو اپنے ہی خیالات میں کھوئے ہیں جناب

اپنے ہی شہر میں بیگانہ بنا دیتا ہے
سخت دشوار ہوا کرتا ہے غربت کا عذاب

دل کے حالات چھپائے سے نہیں چھپتے ہیں
بند چاہے سے بھی ہوتی نہیں چہرے کی کتاب

منتظر ہیں جو ترے چاہنے والے ہی تو ہیں
چاہنے والوں سے کرتا ہے بھلا کون حجاب

آگ کینے کی بجھائے سے نہیں بجھتی ہے
ریگ زاروں میں کھلائے سے نہیں کھلتے گلاب

میں کہ محتاج نہیں کوئی درِ دولت کا
نگہِ دہر میں فائق! ہوں مگر خانہ خراب
 

الف عین

لائبریرین
دلِ کم بخت کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے خواب
جیسے صحرا میں دکھا کرتے ہیں پیاسے کو سراب
... درست

بے ثباتی، بے یقینی، بے وفائی، دھوکا
انہیں ابواب کے مابین ہے دنیا کا نصاب
... بے یقینی اور بے وفائی کی بے کی ے کو گرایا نہیں جا سکتا

نیند تو دے نہ سکی خیر کتابوں نے مگر
دے دیا ہے شبِ تنہائی مجھے تیرا جواب
... پہلے مصرع کی نثر گرامر کے حساب سے درست نہیں ۔
ن یند تو دے نہ سکیں خیر کتابیں لیکن
دے گئی ہیں شب.....

سوچتا ہے کیا زمانہ ہمیں کیا لینا ہے
ہم تو اپنے ہی خیالات میں کھوئے ہیں جناب
...کیا پہلے مصرع میں ک تقطیع ہونا غلط ہے
سوچتا کیا ہے زمانہ....

اپنے ہی شہر میں بیگانہ بنا دیتا ہے
سخت دشوار ہوا کرتا ہے غربت کا عذاب
... درست

دل کے حالات چھپائے سے نہیں چھپتے ہیں
بند چاہے سے بھی ہوتی نہیں چہرے کی کتاب
.... درست

منتظر ہیں جو ترے چاہنے والے ہی تو ہیں
چاہنے والوں سے کرتا ہے بھلا کون حجاب
... درست

آگ کینے کی بجھائے سے نہیں بجھتی ہے
ریگ زاروں میں کھلائے سے نہیں کھلتے گلاب
.. درست

میں کہ محتاج نہیں کوئی درِ دولت کا
نگہِ دہر میں فائق! ہوں مگر خانہ خراب
.. درست
 

محمد فائق

محفلین
دلِ کم بخت کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے خواب
جیسے صحرا میں دکھا کرتے ہیں پیاسے کو سراب
... درست

بے ثباتی، بے یقینی، بے وفائی، دھوکا
انہیں ابواب کے مابین ہے دنیا کا نصاب
... بے یقینی اور بے وفائی کی بے کی ے کو گرایا نہیں جا سکتا

نیند تو دے نہ سکی خیر کتابوں نے مگر
دے دیا ہے شبِ تنہائی مجھے تیرا جواب
... پہلے مصرع کی نثر گرامر کے حساب سے درست نہیں ۔
ن یند تو دے نہ سکیں خیر کتابیں لیکن
دے گئی ہیں شب.....

سوچتا ہے کیا زمانہ ہمیں کیا لینا ہے
ہم تو اپنے ہی خیالات میں کھوئے ہیں جناب
...کیا پہلے مصرع میں ک تقطیع ہونا غلط ہے
سوچتا کیا ہے زمانہ....

اپنے ہی شہر میں بیگانہ بنا دیتا ہے
سخت دشوار ہوا کرتا ہے غربت کا عذاب
... درست

دل کے حالات چھپائے سے نہیں چھپتے ہیں
بند چاہے سے بھی ہوتی نہیں چہرے کی کتاب
.... درست

منتظر ہیں جو ترے چاہنے والے ہی تو ہیں
چاہنے والوں سے کرتا ہے بھلا کون حجاب
... درست

آگ کینے کی بجھائے سے نہیں بجھتی ہے
ریگ زاروں میں کھلائے سے نہیں کھلتے گلاب
.. درست

میں کہ محتاج نہیں کوئی درِ دولت کا
نگہِ دہر میں فائق! ہوں مگر خانہ خراب
.. درست
اصلاح کے لیے شکریہ سر
 
Top