محمد فائق
محفلین
دلِ کم بخت کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے خواب
جیسے صحرا میں دکھا کرتے ہیں پیاسے کو سراب
بے ثباتی، بے یقینی، بے وفائی، دھوکا
انہیں ابواب کے مابین ہے دنیا کا نصاب
نیند تو دے نہ سکی خیر کتابوں نے مگر
دے دیا ہے شبِ تنہائی مجھے تیرا جواب
سوچتا ہے کیا زمانہ ہمیں کیا لینا ہے
ہم تو اپنے ہی خیالات میں کھوئے ہیں جناب
اپنے ہی شہر میں بیگانہ بنا دیتا ہے
سخت دشوار ہوا کرتا ہے غربت کا عذاب
دل کے حالات چھپائے سے نہیں چھپتے ہیں
بند چاہے سے بھی ہوتی نہیں چہرے کی کتاب
منتظر ہیں جو ترے چاہنے والے ہی تو ہیں
چاہنے والوں سے کرتا ہے بھلا کون حجاب
آگ کینے کی بجھائے سے نہیں بجھتی ہے
ریگ زاروں میں کھلائے سے نہیں کھلتے گلاب
میں کہ محتاج نہیں کوئی درِ دولت کا
نگہِ دہر میں فائق! ہوں مگر خانہ خراب
جیسے صحرا میں دکھا کرتے ہیں پیاسے کو سراب
بے ثباتی، بے یقینی، بے وفائی، دھوکا
انہیں ابواب کے مابین ہے دنیا کا نصاب
نیند تو دے نہ سکی خیر کتابوں نے مگر
دے دیا ہے شبِ تنہائی مجھے تیرا جواب
سوچتا ہے کیا زمانہ ہمیں کیا لینا ہے
ہم تو اپنے ہی خیالات میں کھوئے ہیں جناب
اپنے ہی شہر میں بیگانہ بنا دیتا ہے
سخت دشوار ہوا کرتا ہے غربت کا عذاب
دل کے حالات چھپائے سے نہیں چھپتے ہیں
بند چاہے سے بھی ہوتی نہیں چہرے کی کتاب
منتظر ہیں جو ترے چاہنے والے ہی تو ہیں
چاہنے والوں سے کرتا ہے بھلا کون حجاب
آگ کینے کی بجھائے سے نہیں بجھتی ہے
ریگ زاروں میں کھلائے سے نہیں کھلتے گلاب
میں کہ محتاج نہیں کوئی درِ دولت کا
نگہِ دہر میں فائق! ہوں مگر خانہ خراب