غزل

محترم اساتذہ کو اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ
نہ روزن ہو نہ دروازہ گُھٹن چھائی ہو جس دل میں
تو بادِ نو بہاراں کا گذر کیسے ہو اس دل میں

رُلاتی ہے تجھے اب تک ذرا سی بے رُخی اس کی
ہے چنگاری کوئی باقی ابھی خاکسترِ دل میں

مری آنکھوں سے ٹپکا ہے جو آنسو سب نے دیکھا ہے
نہیں دیکھا کسی نے بھی اُٹھا جو درد ہے دل میں

کسی مفلس کی چشمِ تر ترا دل موم کردے گی
ذرا سا بھی جو ہو خوفِ خدا باقی اگر دل میں

نکل سکتا ہے مومن ابتلا سے ایک ہی صورت
مدد چاہے خدا سے اور ہو ذوقِ یقیں دل میں​
 
قوافی پر نظر ثانی کیجیے ... قافیہ تو قائم ہی نہیں ہوا.
نہیں، کیونکہ ہر شعر فرد فرد ہے

سر الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل:
ایک دفعہ دوبارہ کوشش کی ہے۔ آپ سے نظرِ ثانی کی درخواست ہے۔
نہ روزن ہے نہ دروازہ گُھٹن سی ہے مرے دل میں
ہو بادِ نو بہاراں کا گذر کیسے مرے دل میں

رُلاتی ہے تجھے اب تک ذرا سی بے رُخی اس کی
ہے چنگاری کوئی باقی ابھی خاکسترِ دل میں

مری آنکھوں سے ٹپکا ہے جو آنسو سب نے دیکھا ہے
نہیں دیکھا کسی نے درد سا اٹھتا مرے دل میں

کسی مفلس کی چشمِ تر ترا دل موم کردے گی
ذرا سا بھی جو ہو خوفِ خدا باقی ترے دل میں

تو مومن ہےمصیبت سے نکل ہی جائے گا لیکن
رہے ذوقِ یقیں پختہ ہمیشہ ہی ترے دل میں
سر! کیا قوافی کا دہرانا جائز ہے؟ اسی طرح لفظ ٰ تر ے، مرے ،خاکسترِ ٰ میں سے صرف رے کو کیا قافیہ کے طور پر لیا جاسکتا؟
علام محمد اقبال کے ایک کلام میں قوافی یہ ہیں (ان الفاظ سے لیے ہوئے آرزو مندی، خداوندی، پابندی، پیوندی)
مندی، وندی، بندی،وندی
 
سر! کیا قوافی کا دہرانا جائز ہے؟
مطلع کے دونوں مصرعوں میں ایک قافیہ دہرانا جائز نہیں ۔۔۔
صرف اضافت سے بھی قافیہ کا کام نہیں لیا جاسکتا ۔۔۔
مثال کے طور پر ۔۔۔ درِ دل اور خاکسترِ دل تو قوافی ہو سکتے ہیں ۔۔۔ مگر ترے اور خاکسترِ نہیں ۔۔
 
مطلع کے دونوں مصرعوں میں ایک قافیہ دہرانا جائز نہیں ۔۔۔
صرف اضافت سے بھی قافیہ کا کام نہیں لیا جاسکتا ۔۔۔
مثال کے طور پر ۔۔۔ درِ دل اور خاکسترِ دل تو قوافی ہو سکتے ہیں ۔۔۔ مگر ترے اور خاکسترِ نہیں ۔۔
ابتدا میں لکھے ہوئے اشعار (تبدیلی سے پہلے) ہی پھر ٹھیک ہیں۔ غزل تو نہیں البتہ علیحدہ علیحدہ اشعار ہی ہیں۔
 
Top