غزل

Wajih Bukhari

محفلین
8 اکتوبر 2022

-۰-- -۰-- -۰-- -۰--


اور باقی رہ گئی کتنی مسافت ہے کہ میں اب
فاصلوں پر فاصلے طے کرتے کرتے تھک گیا ہوں

کم نہیں ہوتی طلب کیسی انوکھی یہ سزا ہے
چاک دامن بھر نہ پایا بھرتے بھرتے تھک گیا ہوں

مصلحت کا بوجھ لادے عمر اندیشوں میں کاٹی
اب قیامت آ ہی جائے ڈرتے ڈرتے تھک گیا ہوں

روز جینا روز مرنا گر مقدر ہے تو کیوں ہے
اے فنا بس آ بھی جا اب مرتے مرتے تھک گیا ہوں

کاش آجائے کبھی وہ بھول کر اس راستے پر
دیپ گھر کی راہ پر میں دھرتے دھرتے تھک گیا ہوں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب!
لگتا ہے مطلع ابھی تک ابر آلود ہے ، بخاری صاحب ! :)
اگر آپ اپنا اسمِ گرامی اردو میں لکھوالیں تو بہت شاعرانہ لگے گا ۔
 
Top