مظفر۔۔ آپ اس بحر سے ذرا پرہیز کریں۔ نو آمیز اکثر دو بحور کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ ایک ہے:
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
جیسے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
اور
مفعول ماعیل مفاعیل فعولن
جیسے:
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
غالب کی ان دونوں غزلوں پر غور کرو، کچھ فرق محسوس ہوتا ہے۔ ؟؟ وارث ۔ میرا خیال ہے کہ اس حر کو سب سے آخر میں لیا جائے خرم اور راجا کی شاعری کے سلسلے میں بھی۔
اس لئے فی الحال اس غزل کو ہاتھ نہیں لگا رہا۔
ذرا دوسری بحروں میں مشق ہو جائے تو کوشش کرو۔ اپنے سعود کی ابے کھٹ کھٹ یا خرم کی ترنم والی ترکیب میں یہ دونوں بحریں گڑبڑ کر سکتی ہیں۔ تین چار دن پہلے سہ ماہی ’شاخیں‘ کا تازہ شمارہ آیا۔ اس میں چار پانچ غزلیں ایسی ہی ہیں جن میں ایک ہی غزل میں دو مختلف بحریں ہیں۔ ایک دلچسپ مثال یہ بھی ہے اگرتچہ بحر مختلف ہے:
مطلع:
خزاں کے دور کا عالم ہے کیا کیا جائے
زمانہ اس لئے برہم ہے کیا کیا جائے
اور دو اشعار:؛
لگا کے زخموں پہ میرے نمک اکثر وہ کہتا ہے
یہی تو آپ کا مرہم ہے کیا کیا جائے
امیرِ شہر نے سچ کو ہمارئ جھوٹ فرمایا
ہماری بات میں حالاں کہ دم ہے کیا کیا جائے
راجا اور خرم۔۔۔ ان تین اشعار کی تقطیع تو کرو۔۔۔ کچھ مشق ہی بہم ہوگی۔
نہیں میرے نمونے کی غزل کی بحر میں کنفیوژن نہیں ہے۔ ان شاعر صاحب کو نہ جانے کیسے ہو گیا۔
لیکن مظفر محسن کی غزل کی بحر ضرور ایسی ہے کہ مبتدیوں کو اس سے بچنا چاہئے۔