غزل

ضیاء حیدری

محفلین
یہ سب جی کا بہلاوہ ہے، بوسیدہ پیراہن کہیں سلتا ہے
یہ دل کی اک تسلی ہے، زخم تو اندر ہی جلتا ہے

جو کل تھا مسندِ شاہی پہ، آج کوئی نہیں جانتا
وقت کا یہ اصول ہے، ہر چمکتا ستارہ ڈھلتا ہے

محبتوں کا سفر ہو یا دنیا کی دوڑ ہو
کچھ بھی رہے نہ باقی، سب آنکھوں سے چھلکتا ہے

دھوکا ہے یہ خوشیوں کا، امید کا جھوٹا سراب
جو ساتھ چل رہا ہے، وہ لمحہ بھی بدلتا ہے

یہ رات بھی گزر جائے گی، اور خواب بھی چپ ہو جائیں گے
آخر میں دل کی ویرانی ہی اندر سے کُڑتا ہے
 
Top