غزل

امیر شہر کو حیران کرنے والا ہوں
میں اس سے جنگ کا اعلان کرنے والا ہوں

جو پل رہا ہے میرے دل میں ستمگر کے خلاف
میں اس غبار کو طوفان کرنے والا ہوں

ہؤا ہے دل مرا کافر تری پرستش سے
اسے میں پھر سے مسلمان کرنے والا ہوں

وہ جس کی شوخ اداؤں پہ لوگ مرتے ہیں
اسے میں جینے کا سامان کرنے والا ہوں

صبح کی گاڑی سے اک روز یہاں سے جاکر
میں تیرے شہر کو ویران کر نے والا ہوں
خورشید بھارتی
انڈیا
 

یاسر شاہ

محفلین
خاصی جارحانہ مزاج غزل ہے -بہر حال داد کہ رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب -

یہاں پہلا مصرع وزن سے خارج ہوگیا ہے :

صبح کی گاڑی سے اک روز یہاں سے جاکر
میں تیرے شہر کو ویران کر نے والا ہوں

اسے یوں کیا جا سکتا ہے ،ایک تجویز :

روانہ صبح کی گاڑی سے ہو کے میں اک دن
تمھارے شہر کو ویران کر نے والا ہوں

ایک اور مصرع بھی وزن سے باہر ہو رہا ہے :جو پل رہا ہے میرے دل میں ستمگر کے خلاف

ستمگر کی جگہ جابروں یا ظالموں کر دیں تو ٹھیک ہو جائے گا -


وہ جس کی شوخ اداؤں پہ لوگ مرتے ہیں
اسے میں جینے کا سامان کرنے والا ہوں

آپ کی غزل کے اس شعر میں اور گزشتہ غزل کے دو شعروں میں ایک نفسیاتی سا ربط محسوس ہوتا ہے -

ڈرا رہی تھی بہت سر پھری ہوا مجھکو
جلا کے رکھ دیا دہلیز ‌ پہ دیا اپنا

اور اس ربط کے پائے جانے کی بنیادی وجہ آپ کے جذبات کی صداقت ہے کہ بیلاگ لکھ دیتے ہیں اور سادہ طرز ادا ہے کہ قاری بھی آپ کا مافی الضمیر سمجھ جاتا ہے -

بہرحال میں تو کہتا ہی تھا گھر کے چراغ خود سے نہیں نکلتے : :)
نکل کے گھر سے چراغ آ گئے ہیں سڑکوں پر
بدلنا ہوگا اندھیرے کو راستہ‌ اپنا

چراغ کا گھر سے نکل کے آنا کھٹک رہا ہے - یوں دیکھیں :

چراغ گھر سے نکالے گئے ہیں سڑکوں پر
بدل ہی دے گا اندھیرا بھی راستہ اپنا

ویسے گھر کے چراغ سڑکوں پر آ گئے تو سڑکوں کا اندھیرا راستہ بدل کر گھر آ جائے گا -
-----------
آپ کی دیگر نگارشات کا منتظر ہوں -
 
Top