غزل

فائضہ خان

محفلین
نسیمِ شب ہراساں ہے ‘ صبا بے چین پھرتی ہے
شگوفے سرگراں ہیں اور ہوا بے چین پھرتی ہے

مجھے شہرِ تمنّا سے رہائی اب دلا ہی دو
مرے نغمے مقیّد ہیں ‘ صدا بے چین پھرتی ہے

مرے دو چار لقموں کی ذرا قیمت تو تم دیکھو
خدا مجھ کو نہیں ملتا ‘ دُعا بے چین پھرتی ہے

روایاتِ محبت میں کوئی ترمیم لازم ہے
مرا اظہار اور تیری ادا بے چین پھرتی ہے

چمن ہے یہ نئی جنت یا اک پامال سی دوزخ
زبانیں گنگ ہیں اور التجا بے چین پھرتی ہے

شہر سارے کا سارا ہے صلیبیں گاڑ کر بیٹھا
مسیحا مرگئے سارے ‘ دوا بے چین پھرتی ہے

کوئی مانے یا نہ مانے ‘ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے
ہزاروں گھر جہنم ہیں ‘ فضا بے چین پھرتی ہے

عجب ویرانیاں سی ہیں ہمارے اس تعلق میں
یہاں تشنہ نزاکت ہے ‘ وفا بے چین پھرتی ہے

فائضہ خان
 
Top