غزل

نافرع

محفلین
اک کوشش کی ہے آ پ کی خدمت میں پیش ہے۔ اصلا ح کی درخوا ست ہے۔


مرا حال اس نے سنا کچھ نہیں
گویا درد کی اب دوا کچھ نہیں

کبھی ٹوٹ کرچاہتے ہیں اسے
کبھی سوچتے ہیں خدا کچھ نہیں

بہت سوچ کرساتھ چلنا مرے
مرے پاس غم کے سواکچھ نہیں

گھڑی وصل کی یوں بیتی کہ ،اسے
نظربھرکے دیکھاکہا کچھ نہیں

یہاں سے چلوکوچ کرئیں،کہیں
یہاں زندگی سا بچا کچھ نہیں
 

الف عین

لائبریرین
حاضر ہے اصلاح
مرا حال اس نے سنا کچھ نہیں
گویا درد کی اب دوا کچھ نہیں
//گویا‘ بحر سے خارج بنا رہا ہے مصرع کو۔ یہاں ’مرے‘ وزن میں آ سکتا ہے

کبھی ٹوٹ کر چاہتے ہیں اسے
کبھی سوچتے ہیں خدا کچھ نہیں
//درست

بہت سوچ کرساتھ چلنا مرے
مرے پاس غم کے سواکچھ نہیں
//ساتھ چلنے سے کیا غم اڑ کر لگ جاتا ہے جو محبوب کو ساتھ چلنے سے منع کر رہے ہو؟ پہلے مصرع کو بدل دو، تب سوچا جائے۔

گھڑی وصل کی یوں بیتی کہ ،اسے
نظربھرکے دیکھاکہا کچھ نہیں
//’یوبِتی‘تقطیع ہع رہی ہے جو درست نہیں ہے۔ اسے
یوں بیتی گھڑی وصل کی کہ اسے
کر دو۔ اس میں بھی اگرچہ ’کہ‘ کا تلفظ مجھے پسند نہیں، لیکن بہت سے لوگ روا رکھتے ہیں۔

یہاں سے چلوکوچ کرئیں،کہیں
یہاں زندگی سا بچا کچھ نہیں
//کوچ کر دیں/ کر لیں؟ کر دیں درست ہو گا۔
 
Top