غزل -----

مانی عباسی

محفلین
قلندر وہی ہے جو یہ مانتا ہے
طریقت نہیں ہے شريعت سے پہلے

چراغ آخرِ شب کا تھا بجھ گیا ہوں
ہوئی ختم ہے لَو حرارت سے پہلے

نہ لالچ دو آنکھوں کو خوابِ صنم کا
نہ اب نیند آئے گی رحلت سے پہلے

بہت مسکرائے کہا جب یہ میں نے
جما آنکھ مجھ پر شرارت سے پہلے

سنا ہے یہ اہلِ نظر سے ہمیشہ
وفا دیکھتے ہیں شباہت سے پہلے

تھی عادت میرے بھی لبوں کو ہنسی کی
وقوعِ خطائے محبت سے پہلے

ہٹے ہے نقابِ رخِ یار مانی
بپا ہے قیامت قیامت سے پہلے
 
Top