فرحان عباس

محفلین
السلام علیکم۔ اساتذہ اور دوستوں سے اصلاح کی گزارش کے ساتھ'

الف عین محمد یعقوب آسی
فاعلاتن مفاعلن فعلن

"سامنے اپنے آئنہ رکھنا"

نام تب میرا بے وفا رکھنا

مسکراہٹ سے بات جب نہ بنے

روٹھ جانے کی تم ادا رکھنا

ہائے دل غم اسی سے بانٹو جو

چاہتا ہے مجھے خفا رکھنا

جو نہیں سنتا والدین کی بات

اس سے امید کوئی کیا رکھنا

آگے بڑھنا اگرہو چاہتے تو

یاد تم اپنی ابتدا رکھنا

جیتنے کیلئے ضروری ہے

ہار جانے کا حوصلہ رکھنا

چاہے چادر ہو جتنی بھی فرحاںؔ

دل ہمیشہ مگر بڑا رکھنا

فرحان عباس فرحاںؔ
 

فرحان عباس

محفلین
میں کسی ایسے تخلص مثلاََ ، قابلؔ، غالب،ساغرؔ، ساحلؔ، ماہرؔ وغیرہ کی تلاش میں ہوں، لیکن یہ پہلے سے کسی کے ہیں لہذا جب مجھے ایسا کوئی لفظ مل جائے گا تب تبدیل کرلوں گا
 

الف عین

لائبریرین
تو عزیزم تخلص فرحان کیا برا ہے، اسے زبردستی غنہ کر دینا سمجھ میں نہیں آتا۔

روٹھ جانے کی تم ادا رکھنا
۔۔ادا رکھی نہیں جاتی۔
ہائے دل غم اسی سے بانٹو جو
ہائے ہائے بھرتی کا ہے، میرے خیال میں اس کی ضرورت نہیں۔
اپنا غم صرف اس سے بانٹو، جو
چاہتا ہے مجھے خفا رکھنا

آگے بڑھنا اگرہو چاہتے تو
میں روانی کی کمی ہے۔
آگر بڑھنا جو چاہتے ہو تم
کیا جا سکتا ہے

چاہے چادر ہو جتنی بھی فرحاںؔ

دل ہمیشہ مگر بڑا رکھنا
دو لخت لگتا ہے۔ چادر کے چھوٹے ہونے کا تعلق پیر پھیلانے سے ہوتا ہے۔ اس کے بغیر، دل بڑا رکھنے کی بات غیر متعلق لگتی ہے۔
اور یہاں مکمل ’فرحان‘ آ سکتا ہے تو فرحاں کیوں کیا جائے؟
 

فرحان عباس

محفلین
السلام علیکم شکریہ سر ایک شعر نکال دیا ہے۔۔ باقی درج زیل تبدیلیاں کی ہیں
الف عین

"سامنے اپنے آئنہ رکھنا"

نام تب میرا بے وفا رکھنا

اپنا غم صرف اس سے بانٹو، جو

چاہتا ہے مجھے خفا رکھنا

جو نہیں سنتا والدین کی بات

اس سے امید کوئی کیا رکھنا


آگے بڑھنا اگرہو چاہتے تو

یاد تم اپنی ابتدا رکھنا

جیتنے کیلئے ضروری ہے

ہار جانے کا حوصلہ رکھنا

چاہے حالات جو بھی ہوں فرحان
دل ہمیشہ مگر بڑا رکھنا
 

الف عین

لائبریرین
بس اس کو بدل دو
آگے بڑھنا اگرہو چاہتے تو
یوں کر سکتے ہو، مثلاً
آگے بڑھنا جو چاہتے ہو تم
 

فرحان عباس

محفلین
شکریہ :)
سر اب دیکھیں۔ تم کو تو کردیا ورنہ پھر دونوں مصروں میں تم آجائے گا۔

آگے بڑھنا جو چاہتے ہو تو
یاد تم اپنی ابتدا رکھنا

اور اسکو بھی دیکھ لیں،

بانٹتا ہوں اسی سے غم جوکہ
چاہتا ہے مجھے خفا رکھنا

جو نہیں سنتا والدین کی بات
جو بھی ماں باپ کی نہیں سنتا
اس سے امید کوئی کیا رکھنا
 

ابن رضا

لائبریرین
اپنا غم صرف اس سے بانٹو، جو

چاہتا ہے مجھے خفا رکھنا
"مجھے" اس شعر میں بے محل اور مبہم معلوم ہورہا ہے اس کی نثر کر کے دیکھیں

جو نہیں سنتا والدین کی بات
اس سے امید کوئی کیا رکھنا

پہلے مصرع میں اصرار کے لیے "بھی" کی ضرورت ہے یعنی جو والدین کی بھی نہیں سنتا اس سے کوئی اور۔۔۔ تو شعر اور نکھر جائے گا

آگے بڑھنا جو چاہتے ہو تو
یاد تم اپنی ابتدا رکھنا
پہلے مصرع میں تو تم والا نہیں ہے تب والا ہے اس لیے اسے ہی رہنے دیں

چاہے حالات جو بھی ہوں فرحان
دل ہمیشہ مگر بڑا رکھنا

"مگر" کچھ یہاں کھٹک رہا ہے کچھ تبدیلی کر کے دیکھیں​
 
آخری تدوین:
Top