صفی حیدر
محفلین
شب کی بے خوابی مجھ میں باقی ہے
دن کی بے تابی مجھ میں باقی ہے
بجھ گئے ہیں چراغ تاروں کے
شمع یہ کیسی مجھ میں باقی ہے
گو میں سورج کے سنگ چلتا ہوں
رات اک گہری مجھ میں باقی ہے
سب ہی گم ہو گئی ہیں آوازیں
اک صدا روتی مجھ میں باقی ہے
سانس گنتے ہو یہ سوچ کر میری
زندگی کتنی مجھ میں باقی ہے
میرے سب خواب مر گئے لیکن
آس کیوں تیری مجھ میں باقی ہے
تم ہی سوچوں میں بس گئے ہو صفی
بس یہ آزادی مجھ میں باقی ہے
دن کی بے تابی مجھ میں باقی ہے
بجھ گئے ہیں چراغ تاروں کے
شمع یہ کیسی مجھ میں باقی ہے
گو میں سورج کے سنگ چلتا ہوں
رات اک گہری مجھ میں باقی ہے
سب ہی گم ہو گئی ہیں آوازیں
اک صدا روتی مجھ میں باقی ہے
سانس گنتے ہو یہ سوچ کر میری
زندگی کتنی مجھ میں باقی ہے
میرے سب خواب مر گئے لیکن
آس کیوں تیری مجھ میں باقی ہے
تم ہی سوچوں میں بس گئے ہو صفی
بس یہ آزادی مجھ میں باقی ہے