غزل

رشدیٰ ندا

محفلین
دل آج بھی نڈھال ہے، کل بھی نڈھال تھا
جو غم ہے اب کے سال وہی پچھلے سال تھا

لُوٹا ہے اُس نے مجھ کو بڑی سادگی کے ساتھ
وہ شخص اپنے فن میں بڑا باکمال تھا

اُس کے بغیر عمر مجھے کاٹنی پڑی
جس کے بغیر ایک بھی لمحہ محال تھا

رشکِ بہار جس کی تبسم تھی بزم میں
اندر سے یار وہ بھی بڑا پائمال تھا

یہ کم نہیں وار کیا بھی تو پُشت پر
یعنی کہ دوستوں کو ہمارا خیال تھا

مَر کر میں زندگی سے کہانی میں آگیا
یعنی مری وفات نہ تھی،، انتقال تھا

الزام کس پہ قتل کا رکھتے کہ شہر میں
""ہر شخص پارسائی کی عمدہ مثال تھا""

تھا عشق اس کے واسطے اک مشغلہ سراج
میرے لئے تو میری بقا کا سوال تھا
سراج عالم زخمی
 
Top