غزل

برگِ صحرا

محفلین
پلکوں کی شبنم میں کوئی آنسو جو نظر آئے“ہمیں بتانا
غمِ جہاں کا حساب جو حساب میں کوئی لائے“ ہمیں بتانا

دھواں اٹھ رہا تھا اندر سے جانے کس چیز کا
دلِ ناتواں کے جلنے کی خوشبو جو مہکائے“ ہمیں بتانا

بظاہر چپ ہوں لیکن سن رہا ہوں اپنی چیخ و پکار کو
اس دشت تنہائی میں گر کوئی راہ نکل آئے“ ہمیں بتانا

حوصلہ رکھ ابھی طے کرنی ہیں تجھے منزلیں اور بھی
اجاڑ رستوں کا غبار جب نظریں دھندلائے“ ہمیں بتانا

شاید ابھی وقت ہے بابِ زیست کے کھلنے میں لیکن
جب ورق سے ورق الجھائے“ ہمیں بتانا

اجڑتے دیار کے یہاں تماشائی ہیں بہت
پتھر کی مورتیوں میں کوئی آئینہ جو دکھائے“ ہمیں بتانا

ارے ٹھہرئیے ذرا کہاں چل دیئے یوں بد لحاظ ہو کر
داستانِ غم سے ہماری جو کلیجہ منہ کو آئے“ ہمیں بتانا

مانا کہ تیری محفل کی شان الگ ہے اوروں سے لیکن
جب کوئی تمہیں سا تم کو مل جائے“ ہمیں بتانا

یونہی خفا رہو گے کب تک یاد کرو دل دھڑکنے کا سبب
الجھے رویوں میں دبی وفا جب گنگنائے“ ہمیں بتانا

اک نئی سحر لاتی ہیں چمن میں یہ بدلتی رتیں خاکمؔ
ہجر کے اندھیروں میں جب وصل کی بلبل چہچہائے“ ہمیں بتانا
#خاکم از خاک
 
غزل بحور سے آزادنہیں ہو سکتی۔
یہاں اصلاحِ سخن کا زمرہ موجود ہے، جہاں اساتذہ سکھانے کا عمل جاری کیے ہوئے ہیں۔
عروض و بحور کو سمجھیں، مزید محنت کے ساتھ آپ اس کو پابندِ بحور بھی بنا سکتے ہیں۔ :)
 
Top