غزٌ ل : جاں لے کے چلے ہیں کہ کہیں وار ہی دیں گے : از : محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن

جاں لے کے چلے ہیں کہ کہیں وار ہی دیں گے
ورنہ تو یہ حالات ہمیں مار ہی دیں گے

آنکھوں کو طراوٹ بھی ملے گی تو انہی سے
سایہ بھی ہمیں یہ گھنے اشجار ہی دیں گے

کیوں نعرہ انالحق کا لگاتے ہو دِوانو ؟
دیوانے جواب اِس کا سرِ دار ہی دیں گے

لٹکاؤ صلیبوں پہ کہ تم دار پہ کھینچو
ہم اہلِ محبت ہیں ، تمھیں پیار ہی دیں گے

دیکھا تھا ہزاروں نے مرے قتل کا منظر
پر اس کی گواہی مرے کچھ یار ہی دیں گے

ہر چند زبوں حال ہیں پر قوم کی خاطر
قربانی بھی ہم جیسے گنہگار ہی دیں گے

آئے گا بلاوہ بھی مدینے کا انہی سے
اور اِذنِ سفر بھی مرے سرکار ہی دیں گے
 
مشرف گرچہ شد جامی ز لطفت
خدایا ایں کرم بار دگر کن
آئے گا بلاوہ بھی مدینے کا انہی سے
اور اِذنِ سفر بھی مرے سرکار ہی دیں گے
واہ واہ واہ سر بہت عمدہ بہت خوب، کیا ہی کہنے۔ کیا خوبصورت روانہ کلام ہے۔۔۔۔۔ کمال ہے سر۔ لاجواب۔
کیوں نعرہ انالحق کا لگاتے ہو دِوانو ؟
دیوانے جواب اِس کا سرِ دار ہی دیں گے
ابھی تو اک نے سنی ہے صدائے مستانہ
پڑے وہ گونج کے سارے جہان تک پہنچے۔۔۔۔۔ (حسن محمود جماعتی)
 
آنکھوں کو طراوٹ بھی ملے گی تو انہی سے
سایہ بھی ہمیں یہ گھنے اشجار ہی دیں گے
بے شک بے شک
لٹکاؤ صلیبوں پہ کہ تم دار پہ کھینچو
ہم اہلِ محبت ہیں ، تمھیں پیار ہی دیں گے
واہ، کیا خوبصورت بات کہی ہے۔
آئے گا بلاوہ بھی مدینے کا انہی سے
اور اِذنِ سفر بھی مرے سرکار ہی دیں گے
ان شاء اللہ۔

بہت عمدہ حفیظ صاحب۔ بہت سی داد
 

فاخر رضا

محفلین
غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن

جاں لے کے چلے ہیں کہ کہیں وار ہی دیں گے
ورنہ تو یہ حالات ہمیں مار ہی دیں گے

آنکھوں کو طراوٹ بھی ملے گی تو انہی سے
سایہ بھی ہمیں یہ گھنے اشجار ہی دیں گے

کیوں نعرہ انالحق کا لگاتے ہو دِوانو ؟
دیوانے جواب اِس کا سرِ دار ہی دیں گے

لٹکاؤ صلیبوں پہ کہ تم دار پہ کھینچو
ہم اہلِ محبت ہیں ، تمھیں پیار ہی دیں گے

دیکھا تھا ہزاروں نے مرے قتل کا منظر
پر اس کی گواہی مرے کچھ یار ہی دیں گے

ہر چند زبوں حال ہیں پر قوم کی خاطر
قربانی بھی ہم جیسے گنہگار ہی دیں گے

آئے گا بلاوہ بھی مدینے کا انہی سے
اور اِذنِ سفر بھی مرے سرکار ہی دیں گے
بہت ہی اچھی شاعری ہے. ماشاءاللہ اور جزاک اللہ
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے لیکن ان غزلوں کی ٹکر کی نہیں جو تم کہہ چکے ہو۔ معذرت صاف گوئی کی!!
 
مشرف گرچہ شد جامی ز لطفت
خدایا ایں کرم بار دگر کن

واہ واہ واہ سر بہت عمدہ بہت خوب، کیا ہی کہنے۔ کیا خوبصورت روانہ کلام ہے۔۔۔۔۔ کمال ہے سر۔ لاجواب۔

ابھی تو اک نے سنی ہے صدائے مستانہ
پڑے وہ گونج کے سارے جہان تک پہنچے۔۔۔۔۔ (حسن محمود جماعتی)
جناب حسن محمود جماعتی بھائی۔ غزل کی پسندیدگی کے لیے بہت بہت شکریہ قبول فرمایئے۔ بڑی نوازش ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔
 
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے لیکن ان غزلوں کی ٹکر کی نہیں جو تم کہہ چکے ہو۔ معذرت صاف گوئی کی!!
استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاھب ۔ سر غزل کی پسندیدگی پر شکریہ قبول فرمایئے ۔ جہاں تک اس کے پچھلی غزلوں جیسی نہ ہونے کی بات ہے تو اس تنقید پر معذرت کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ۔یہ تو آپ کا حق ہے بلکہ یہی آپ کا منصب ہے ۔ اساتذہ کا تو کام ہی یہ ہے کہ لگی لپٹی رکھے بغیر صاف صاف بات کردیں ۔ یہی ہمارے حق میں بہتر ہے ۔ اگر ایسی رہنمائی نہ ملے تو ہم جیسوں کے لیئے اپنے معیار میں بہتری لانا کیسے ممکن ہو سکے گا ؟ جہاں معیاری تنقید نہ ہو وہاں معیاری ادب کیسے ممکن ہے ۔
میں گذشتہ سال ڈیڑھ سال سے آنکھوں کی بیماری میں مبتلا ہو کرپڑھنے سے قاصر تھا ۔ اسی پریشانی میں شاعری کی دیوی بھی روٹھی ہوئی تھی اسی باعث اردو محفل سے بھی دور تھا ۔ آپ جانتے ہیں کہ اچھا لکھنے کے لیئے عمدہ ادب پڑھتے رہنا کتنا ضروری ہوتا ہے ۔ روزنامہ جنگ کے مشہور کالم نویس جناب ارشاد احمد حقانی مرحوم نے ایک بار لکھا تھا کہ " تھوڑا سا لکھنے کے لیئے بھی بہت سا پڑھنا پڑتا ہے " ۔ اس سال بھر کے عرصے میں دماغ پر جو زنگ چڑھ گیا ہے اس کے اترنے میں کچھ وقت لگے گا ۔ اگر آپ کی اسی طرح رہنمائی ملتی رہی تو انشا اللہ یہ مشکل جلد دور ہو جائے گی ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔
 
Top