غزہ کے نام (نظم)

اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

شہر پر قبضہ جمانے کے لیے بد بخت نے
ڈھیر ملبے کا بنا ڈالا ہے سارے شہر کو

سنگ دل انسان نے انسانیت کے نام پر
مقبرہ انسانیت کا ہے بنایا دہر کو

شیر خواروں کے بدن کے پرخچے ہیں اُڑ گئے
جوش کیوں آیا نہیں اب تک خدا کے قہر کو

ظالموں کے ظلم پر خاموش رہنا جُرم ہے
روک لو تُم پھیلنے سے نفرتوں کے زہر کو

تیشہِ فرہاد لے کر پیار کی ہمت لیے
پتھروں کے شہر میں تُم کھود لاؤ نہر کو

کون ہے جو ساتھ دیتا ہے مصیبت میں یہاں
چھوڑ دے سایہ بھی اپنا ڈھل گئی دوپہر کو

ہر زمانے میں بپا ہوتی رہی ہے کربلا
ظلم کب ہے روک پایا حریت کی لہر کو
 

الف عین

لائبریرین
اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

شہر پر قبضہ جمانے کے لیے بد بخت نے
ڈھیر ملبے کا بنا ڈالا ہے سارے شہر کو
کس شہر کی بات ہے؟ غزہ شہر کا نام نہیں، علاقے کا نام ہے
سنگ دل انسان نے انسانیت کے نام پر
مقبرہ انسانیت کا ہے بنایا دہر کو
دہر یعنی زمانے کو مقبرہ بنانا درست محاورہ نہیں، "ہے بنایا" بھی اچھا اظہار بیان نہیں
شیر خواروں کے بدن کے پرخچے ہیں اُڑ گئے
جوش کیوں آیا نہیں اب تک خدا کے قہر کو
پرَخچے میں ت پر زبر اور خ ساکن ہے
ظالموں کے ظلم پر خاموش رہنا جُرم ہے
روک لو تُم پھیلنے سے نفرتوں کے زہر کو
درست
تیشہِ فرہاد لے کر پیار کی ہمت لیے
پتھروں کے شہر میں تُم کھود لاؤ نہر کو
درست
کون ہے جو ساتھ دیتا ہے مصیبت میں یہاں
چھوڑ دے سایہ بھی اپنا ڈھل گئی دوپہر کو
ڈھل گئی دوپہر؟ یہ تو ماضی کا فعل ہے، صفت کے طور پر یوں نہیں کہا جا سکتا ڈھلتی ہوئی کا محل ہے، "چھوڑ دے" بھی اچھا نہیں، "چھوڑ دیتا ہے" کی جگہ
ہر زمانے میں بپا ہوتی رہی ہے کربلا
ظلم کب ہے روک پایا حریت کی لہر کو
"ہے روک پایا" بھی مجہول ہے
 
شہر پر قبضہ جمانے کے لیے بد بخت نے
ڈھیر ملبے کا بنا ڈالا ہے سارے شہر کو
کس شہر کی بات ہے؟ غزہ شہر کا نام نہیں، علاقے کا نام ہے
محترم استاد الف عین صاحب! آپ نے درست نشاندہی کی ہے۔ شعر کی بجائے نظم کا عنوان بدل دیا ہے
جنگ میں تباہ کردیے گئے غزہ کے ایک شہر کے نام
سنگ دل انسان نے انسانیت کے نام پر
مقبرہ انسانیت کا ہے بنایا دہر کو
دہر یعنی زمانے کو مقبرہ بنانا درست محاورہ نہیں، "ہے بنایا" بھی اچھا اظہار بیان نہیں
پر تکبر قوم نے بس اپنی جنت کے لیے
اک جہنم سا بنا ڈالا ہے باقی دہر کو

شیر خواروں کے بدن کے پرخچے ہیں اُڑ گئے
جوش کیوں آیا نہیں اب تک خدا کے قہر کو
پرَخچے میں ت پر زبر اور خ ساکن ہے
شیر خواروں کے بدن کے چیتھڑے ہیں اُڑ گئے
جوش کیوں آیا نہیں اب تک خدا کے قہر کو

ظالموں کے ظلم پر خاموش رہنا جُرم ہے
روک لو تُم پھیلنے سے نفرتوں کے زہر کو
درست
تیشہِ فرہاد لے کر پیار کی ہمت لیے
پتھروں کے شہر میں تُم کھود لاؤ نہر کو
درست

کون ہے جو ساتھ دیتا ہے مصیبت میں یہاں
چھوڑ دے سایہ بھی اپنا ڈھل گئی دوپہر کو
ڈھل گئی دوپہر؟ یہ تو ماضی کا فعل ہے، صفت کے طور پر یوں نہیں کہا جا سکتا ڈھلتی ہوئی کا محل ہے، "چھوڑ دے" بھی اچھا نہیں، "چھوڑ دیتا ہے" کی جگہ\
کون ہے جو ساتھ دیتا ہے مصیبت میں یہاں
ساتھ سایہ بھی نہیں ہوتا ڈھلی دوپہر کو ------------(سر! ڈھلتی ہوئی دوپہر میں سایہ کم ہوتا جاتا ہے جبکہ ڈھلی دوپہر کو بالکل نہیں ہوتا)

ہر زمانے میں بپا ہوتی رہی ہے کربلا
ظلم کب ہے روک پایا حریت کی لہر کو
"ہے روک پایا" بھی مجہول ہے
ہر زمانے میں بپا ہوتی رہی ہے کربلا
ظلم کب ہے روک سکتا حریت کی لہر کو
 

الف عین

لائبریرین
اک جہنم سا بنا ڈالا ہے باقی دہر کو
... سارے دہر کو
شیر خواروں کے بدن کے چیتھڑے ہیں اُڑ گئے
... اڑ گئے ہیں چیتھڑے
ڈھلی دوپہر... درست ہو گیا
ہے پاتا اور ہے سکتا... دونوں ایک ہی طرح مجہول ہیں
 
پر تکبر قوم نے بس اپنی جنت کے لیے
اک جہنم سا بنا ڈالا ہے باقی دہر کو

... سارے دہر کو
پر تکبر قوم نے بس اپنی جنت کے لیے
اک جہنم سا بنا ڈالا ہے سارے دہر کو

شیر خواروں کے بدن کے چیتھڑے ہیں اُڑ گئے
جوش کیوں آیا نہیں اب تک خدا کے قہر کو

... اڑ گئے ہیں چیتھڑے
شیر خواروں کے بدن کے اُڑ گئے ہیں چیتھڑے
جوش کیوں آیا نہیں اب تک خدا کے قہر کو

ہر زمانے میں بپا ہوتی رہی ہے کربلا
ظلم کب ہے روک سکتا حریت کی لہر کو

ہے پاتا اور ہے سکتا... دونوں ایک ہی طرح مجہول ہیں
ہر زمانے میں بپا ہوتی رہی ہے کربلا
مومنو !رکنے نہ دینا حریت کی لہر کو

یا
کربلا کرکے بپا لڑتے رہو تم ظلم سے
مومنو !رکنے نہ دینا حریت کی لہر کو

محترم استاد الف عین صاحب! آپ سے نظرثانی کی درخواست ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
مومنو والا مصرع اچھا ہے، لیکن پہلے مصرع کے پہلے متبادل مین، اگرچہ رواں ہے، ظلم کی بات نہیں ہے۔ دوسرے میں ہے، مگر اس میں کربلا بپا کرنے والے اہل غزہ ہی بن گئے ہیں.؟
کربلا کی طرح جور و ظلم سے لڑتے رہو
ایک تجویز
باقی تو میرے ہی مشورے ہیں
 
ہر زمانے میں بپا ہوتی رہی ہے کربلا
مومنو !رکنے نہ دینا حریت کی لہر کو

مومنو والا مصرع اچھا ہے، لیکن پہلے مصرع کے پہلے متبادل مین، اگرچہ رواں ہے، ظلم کی بات نہیں ہے۔ دوسرے میں ہے، مگر اس میں کربلا بپا کرنے والے اہل غزہ ہی بن گئے ہیں.؟
کربلا کی طرح جور و ظلم سے لڑتے رہو
ایک تجویز
سر الف عین صاحب آپ کی تجویز صائب لیکن مزید ایک کوشش ہے میری طرف سے۔ (تھوڑے تنافر کے ساتھ)
پھر بپا اک کربلا کر دی ہے ظالم نے اگر
مومنو !رکنے نہ دینا حریت کی لہر کو

باقی تو میرے ہی مشورے ہیں
سر آپ کی شفقت سے ہی سیکھنے کو مل رہا ہے۔ آپ کے مشورے دوبارہ اس لیے لکھے تھے کہ انہیں میں نے اسی طرح اصل نظم میں تبدیل کردیا ہے۔
 
Top