غزہ!

غزہ!

پھولوں کے رخ پر زخم لگے ہیں
کچھ بچے سسک رہے ہیں، کچھ مر چکے ہیں
بوڑھے ، جواں بےٹوں کی لاشیں اٹھانے سے قاصر
نا امید اور منتظر ہیں
شاید کوئی بچا ہوا جوان انہیں دفنا پائے
بوڑھی عورتیں بے جان سا سوگ منا رہی ہیں
کہ وہ تھکن زدہ ہیں اور بہت رو چکی ہیں
اوران کی دامن قطروں سے بھرے ہوئے ہیں
کچھ ملے جلے بیمار اپنی نجات دہی کا انتظار کر رہے ہیں
نوجوانوں کے خوں میں انتقام بھرا ہے
غزہ پہ پھر ا ک بم گرا ہے !
٭٭٭
 
آخری تدوین:
بہت خوب اچھی کاوش ہے غزہ میں ہونے والے مظالم کی عکاس نظر آرہی ہے آپکی نثری نظم کاش غزہ کا غم ہر مسلمان کا غم بن جائے اور اپنے غم کو ختم کرنےکو کمر باندھ لے۔۔۔ایک چھوٹی سی غلطی کی جانب اشارہ کر رہا ہوں اس کی اصلاح کر دیں چوتھی لائن میں منتظر کے بعد لفظ ہیں کو ٹھیک کر دیں جزاک اللہ
 
بہت خوب اچھی کاوش ہے غزہ میں ہونے والے مظالم کی عکاس نظر آرہی ہے آپکی نثری نظم کاش غزہ کا غم ہر مسلمان کا غم بن جائے اور اپنے غم کو ختم کرنےکو کمر باندھ لے۔۔۔ایک چھوٹی سی غلطی کی جانب اشارہ کر رہا ہوں اس کی اصلاح کر دیں چوتھی لائن میں منتظر کے بعد لفظ ہیں کو ٹھیک کر دیں جزاک اللہ
بہت نوازش، جزاک اللہ، تدوین کردی گئی ہے۔
 
Top